کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 527
صابی عالم بالا کے ہیا کل[جیسے کواکب وغیرہ] کی عبادت کرتے تھے۔وہ علتِ اولیٰ کی ایک ہیکل بناتے تھے۔ایسے ہی عقلِ اول کی ہیکل اور نفسِ کلیہ کی ہیکل ۔اسی طرح زحل ،مشتری اور مریخ ،شمس ،زہرہ ،عطارد اور قمرکے ہیکل اور مجسمے بناتے تھے؛ اور وہ ان امور کے ذریعے تقرب حاصل کرتے تھے جو ان کے نزدیک معروف تھے۔ یعنی ایسی عبادات اور قربتیں جو ان کے ہاں معروف تھے۔[1] یہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے دشمن تھے جس نے ان کو ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا اور اس کا مولد (جائے پیدائش)اکثر لوگوں کے نزدیک یا تو عراق میں تھا؛ یا حران میں جس طرح کہ تورات میں ہے ۔اسی وجہ سے تو اس نے ان کے ساتھ ستاروں اور بتوں کی عبادت میں مناظرہ کیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف سے نقلاً اس کو بیان بھی کر دیا جب اس نے دیکھا کہ وہ تو ایک کوکب ہے تو جب ستارے کو دیکھا توفرمایا: ’’ہذا ربی ‘‘ ’’یہ میرا رب ہے۔‘‘ اور پھرفرمایا: ’’﴿لا أحب الافلین﴾ ’’میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘۔‘‘ اور پھر فرمایا[یعنی اللہ تعالیٰ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ]: ﴿ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَأَی کَوْکَباً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِیْنَ(76) فَلَمَّا رَأَی الْقَمَرَ بَازِغاً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ یَہْدِنِیْ رَبِّیْ لأکُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّیْنَ(77) فَلَمَّا رَأَی الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہَـذَا رَبِّیْ ہَـذَا أَکْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ(78) إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(انعام ۷۶ تا ۷۹ ) ’’تو جب اس پر رات چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔پھر جب اس نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا یقیناً اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی تو یقیناً میں ضرور گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔ پھر جب اس نے سورج چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوگیا کہنے لگا اے میری قوم! بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔بے شک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی ) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں ۔‘‘ اور جہمیہ اور معتزلہ اور دیگر فرق میں سے ایک جماعت نے یہ گمان کیا کہ اس کی مراد اس قول ’’ہذا ربی سے یہ ہے کہ یہی عالم کا خالق ہے اور اس نے اس کے عدمِ ربوبیت پرغروب سے استدلال کیا جو کہ حرکت اور انتقال
[1] صابی ایک متوسط روحانی واسطہ جیسے کواکب اور اصنام کے قائل تھے۔ ان کا مرکز شہر حران [شام ] میں تھا۔ جو کہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ یہ لوگ سورج ؛ چاند اور ستاروں کے پجاری تھے۔ دیکھو: الملل و النحل ۲۰۸۔ الخطط للمقریزی ۱؍ ۳۴۴۔