کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 526
اور اگر ان میں سے ہر ایک مستقل بذاتہ ہے تو اس کا دوسرے سے الگ وجود ضروری ہے۔ اور اگر اس ترکیب سے انسانِ عقلی کی ترکیب مراد ہے جو ذہنوں میں متصور ہوتا ہے اور خارج میں موجود نہیں تو یہ حق ہے۔ لیکن وہ انسان جو ذہن میں متصور ہے اگراس کو حیوان اور ناطق سے مرکب قرار دیا ؛ اوروہ اس سے مرکب ہو گیا ہے؛ اور اگر اس ذہن نے اس کو حیوان اور صاہل سے مرکب بنا دیا تو وہ اس سے مرکب بن گیا۔ پس کسی مدعی کا یہ دعویٰ کہ دو صفتوں میں سے ایک تو ذاتی ہے جو کہ موصوف کے لیے مقوم ہے اور اس کے بغیر متحقق نہیں ہوتا نہ خارج میں نہ ذہن میں ۔ اور دوسری صفت عرضی ہے اور موصوف اس کے بغیر پایا جا سکتا ہے ۔باوجود یکہ دوسری صفت بھی پہلی کے ساتھ لزوم میں مساوی ہے ؛تو پھر یہ دو متماثلین کے درمیان تفریق ہے ۔اور وہ فروع جو ذاتی اور عرضی کے درمیان ذکر کرتے ہیں یعنی لازمِ ماہیت تووہ تین ہیں اور وہ تینوں فروق منقوض ہیں اور ان پر اعتراضات ہیں ۔ یہ لوگ اس کے انتقاض اور منقوض ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں جس طرح کہ ابن سینا اورا س کے وہ متبعین جو اشارات کے شارح ہیں انھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔صاحبِ ’’معتبر ‘‘اور دوسروں نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیل دوسرے مقام پر مذکور ہے۔[1] ایسے ہی ان کے اس قول اور ان کے موافقین کے اس قول پر بھی کلام کا یہ حال ہے جو واجب الوجود کے بارے میں وحد ۃ الوجود کے قائل ہیں اور یہ بھی اس مقام کے علاوہ کسی اور مقام پر بیان ہوا ہے اور یہاں تو مقصود پیغمبروں کی تعلیمات پر ایک مختصر اور جامع بات ذکر کرنا مقصود تھا ۔لیکن جب اس شیعہ مصنف نے اپنی جماعت کے بارے میں یہ کہنا شروع کیا کہ ہم ہی توحید میں ٹھیک راہ پر چل رہے ہیں ؛ ہمارے علاوہ کوئی اور نہیں ۔ تو ہمیں یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس بات پر تنبیہ کی جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ جو لفظ ’’جسم ‘‘کا ذکرکیا ہے؛ تو یہ لفظ صفات باری تعالیٰ میں نہ توکتاب اللہ میں ہے اور نہ سنت میں ؛ نہ اس کی نفی ہے نہ اثبات۔ اور نہ صحابہ اور تابعین اور تبع التابعین میں سے کسی نے اس پرکلام کیا ہے اور نہ اہل بیت میں سے کسی نے۔ لیکن جب جہمیہ نے اموی دورِ حکومت کے آخری زمانے میں صفات کی نفی کا عقیدہ اختیار کیا[تو یہ بدعات بھی سامنے آئیں ]۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے اس عقیدہ کی یہ بدعت نکالی وہ جعد بن درہم تھا[2] جو خلفائے بنی امیہ میں سے آخری خلیفہ مروان بن محمد کا استاذتھا۔ اوراس جعد بن درہم کا تعلق شہر حران سے تھا؛ جہاں پر صابی اور فلاسفہ کے بعض آئمہ تھے۔ فارابی نے متی سے علم لیا تھا۔ پھر وہ حران آیا۔ اوروہاں پر اس نے صابی مذہب سے کچھ علم حاصل کیا۔
[1] العقود الدریہ ۹۔ الصفدیہ ۱۹۳۔ الرد علی المنطق [2] جعد بن درہم کے متعلق پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔ اسے ۱۱۸ہجری میں قتل کیاگیا ۔ خالد القسری نے عید الاضحیٰ کے دن قتل کیا تھا۔ مزید دیکھیں : میزان الاعتدال ۱؍ ۱۸۵۔ الکامل لابن الاثیر ۵؍ ۱۶۰۔ لسان میزان ۲؍ ۱۰۵۔