کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 525
میں سے جس کو بھی فرض کر لیا جائے تو وہ واجب کی بہ نسبت زیادہ اکمل نکلتا ہے اور یہ توانتہائی فساد اور کفرہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ :وہ بغیر کسی شرط [لابشرط]مطلق ہے؛ جس طرح کہ صدرقونوی[1] اور اس کے ہمنواؤں کا کہنا ہے جو کہ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں ؛ تو مطلق لابشرط چیز ان کے نزدیک علم الٰہیات کا موضوع ہے ۔ وہ علم الٰہیات جو کہ حکمت علیا اور فلسفہ اولیٰ کہلاتا ہے اس لیے کہ وجود مطلق اور لابِشرط چیز واجب ،ممکن ،علت ، معلول ،جوہر اور عرض کی طرف تقسیم ہوتا ہے۔ اور یہ تو ان کے نزدیک اس علمِ عالیٰ کا موضوع ہے جو کہ وجود اور اس کے لواحق میں بحث کرتا ہے ۔اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ وجود جو واجب اور ممکن کی طرف منقسم ہو وہ اُس وجود کا مغایر ہے جو واجب ہے۔ اور مطلق بشرط الاطلاق ہے ؛یہ وہی ہے جس کو کلی طبعی کانام دیتے ہیں ۔ اور خارج میں اس کے وجود کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ خارج کے اندر تو معین شخص پایا جاتا ہے نہ کہ کلی۔ پس جو چیز کلی ہے وہ اذہان میں تو پائی جاتی ہے مگر اعیان اور حس میں وہ کلی نہیں پائی جاتی پس جس نے کہا کہ کلی طبعی خارج میں موجود ہے اور اس نے یہ معنی مراد لیا تو تحقیق اس نے تو ٹھیک راہ اختیار کی ۔ اگر یہ کہے کہ خارج کے اندر وہ امر پایا جاتا ہے جو کلی ہے جس طرح کہ ان بہت سے لوگوں کے کلام کا تقاضہ ہے اور ان کے کلام سے ثابت ہوتا ہے انہوں نے منطق الٰہیہ میں کلام کیا ہے۔ اور اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خارج کے اندر ایک انسانِ کلی پایا جاتا ہے۔ ایسا فرسِ مطلق کلی پایا جاتا ہے اور حیوان مطلق کلی پایا جاتا ہے؛ تو یہ بالکل غلطی میں پڑا ہوا ہے ۔خواہ وہ اس بات کا دعویٰ کرے کہ یہ کلیات اعیان سے مجرد اور ازلی ہیں ؛ جس طرح کہ افلاطون سے نقل کرتے ہیں ؛اور اس کو یہ مسئلہ افلاطونیہ کہتے ہیں ؛یا یہ دعویٰ کریں کہ وہ معین افراد کے ساتھ مقارن نہیں ہوتے۔ یا وہ یہ دعویٰ کریں کہ مطلق کسی فردِ معین کا جزء ہیں ؛جس طرح کہ ارسطو اور اس کی جماعت سے نقل کرتے ہیں ۔ جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال؛ کہتے ہیں کہ نوع جنس اور فصل سے مرکب ہے ۔اور بے شک انسان حیوان اور ناطق سے مرکب ہیں ۔اور فرس مرکب ہے حیوان اور صاہل سے۔ بے شک اگر اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ان دونوں (حیوان اور ناطق) سے مرکب ہے؛ تو یہ بات حق ہے۔ اس کو حیوان بھی کہا جا سکتا ہے اور ناطق بھی۔ لیکن صفت موصوف کے وجود کا سبب نہیں ہوتی اور نہ اس پر مقدم ہوتی ہے؛ نہ محسوسات اور خارج میں ؛ نہ عقل میں ۔ اورجوہر جو قائم بنفسہ ہو؛ وہ دو عرضوں سے مرکب نہیں ہوتا۔ اور اگر مرادیہ ہے کہ انسان جو خارج میں موجود ہے وہ دوجوہروں سے مرکب ہے جن میں سے ہر ایک قائم بنفسہ اور مستقل ہے ایک حیوان اور ایک ناطق ؛تو یہ عقل اور مشاہدے دونوں کا انکارہے؛کیونکہ خارج میں یہ دونوں جدا نہیں پائے جاتے۔
[1] صدر قونوی؛ صدر الدین محمد بن اسحق بن محمد بن یوسف بن علی بن قونوی الرومی ؛ بہت بڑے صوفیاء میں سے ایک تھا؛ جو کہ وحدت وجود کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یہ محی الدین ابن عربی کا ساتھی تھا۔ ۶۷۳ھ میں فوت ہوا۔ دیکھو: طبقات الکبری از شعرانی ۱؍۱۷۷ ؛ اعلام ۶؍ ۶۵۴۔ رسالہ سبعینیہ از ابن تیمیہ ؛ اور الطریقہ الاکبریہ ص ۳۴۳۔