کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 524
اور وہ تنزیہ کہ جس کا رب تعالیٰ مستحق ہے وہ دو انواع میں منحصر ہے:
اول: اللہ کی ذات سے نقص کی نفی ۔
دوم: حوادث میں کسی بھی چیز کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ صفات کمال میں کسی بھی صفت میں مماثلت کی نفی ۔
پس اللہ تعالیٰ کے لیے کمال کی صفات کو ثابت کرنا ساتھ غیر کی مماثلت کے نفی کے یہ ان (دونوں نوعوں ) کے لیے جامع ہے جس طرح کہ آیتِ مذکورہ اس پر دلالت کرتی ہے ۔رہے وہ لوگ جو مشرکین اور صابئین میں سے ہیں جو مخالفین ہیں اور جو لوگ ان کے متبعین ہیں جہمیہ ،فلاسفہ اور معتزلہ ؛ اور ان سے جیسے دیگر لوگ ؛ تو ان کا طریقہ تو تفصیلی نفی ہے اور اثباتِ مجمل ہے۔وہ صفاتِ کمال کی نفی کرتے ہیں اور ایسے امور کو ثابت کرتے ہیں جو صرف خیال اور وہم میں پائے جاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسابھی نہیں اورایسا بھی نہیں ۔ ان میں سے بعض وہ ہیں کہتے ہیں : اللہ کے لیے کوئی صفت ِ ثبوتیہ ثابت نہیں ۔ بلکہ یا تو وہ سلبیہ ہیں یا اضافیہ ہیں ۔ یا ان دونوں سے مرکب ہیں ۔ جس طرح کہ صابئین اور فلاسفہ کا قول ہے ۔جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا وجودِ مطلق ہے جو امور ثبوتیہ کے سلب کے ساتھ مشروط ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاوجود شرط الاطلاق کے ساتھ مطلق ہے۔
وہ اپنی منطق میں ایسی بات تسلیم کرتے ہیں جو عقلِ صریح سے معلوم ہوتی ہے۔ یعنی کہ ایسا مطلق جو شرط الاطلاق کے ساتھ مطلق ہو؛ اس کا وجود ذہنوں میں پایا جاتا ہے؛ خارج میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ پس خارج میں کسی ایسے حیوان کا وجود متصور نہیں جو مطلق ہو بشرط الاطلاق۔ نہ ہی کوئی ایسا انسان ہے اور نہ کوئی جسم۔ پس واجب الوجود خارج میں ممتنع الوجود ٹھہرا۔ اور یہ قول تعطیل ،جہل اور کفر کو مستلزم ہونے کیساتھ ساتھ جمع بین النقیضین پر بھی مشتمل ہے ۔
جس نے کہا کہ مطلق ہے؛ مگر امورِ ثبوتیہ کے سلب کے ساتھ مشروط ہے۔ تو یہ مطلق بشرط الاطلاق سے بھی زیادہ أبعد ہوا۔کیونکہ اس نے تو اسے امور وجودیہ کے سلب کے ساتھ مقید کر لیا نہ کہ عدمیہ کے ساتھ۔ اور یہ تو اس کی بہ نسبت اولیٰ بالعدم ہے۔ وہ امورِ وجودیہ اور عدمیہ دونوں کے سلب کے ساتھ مقید ہو اور یہ امتناع میں نسبتاً زیادہ ابلغ بھی ہے۔ اس لیے کہ وہ موجود جو غیر کے ساتھ وجود میں شریک ہو تو وہ اس سے کسی وصف ِ عدمی میں ممتاز نہیں ہوتا؛ بلکہ امرِ وجودی کے ساتھ ممتا ز ہوتا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ موجود مشارک لغیرہ فی الوجود اس سے کسی عدمی وصف کی بنا پر ممتازنہیں ہوتا؛ بلکہ وہ وجودی امر کی بنا پر ممتاز ہوتا ہے۔ اوریہ اس امتناع سے زیادہ بلیغ ہے جو سلب وجود اور عدم کی بنا پر ممتاز ہو۔
مزید برآں بیشک یہ تمام موجودات کے ساتھ مسمیٰ وجود میں شریک ہے۔اور عدم کی بنا پر ان سے امتیازی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ جب کہ وہ اس سے وجود کی بناپر ممتاز ہے۔پس ان لوگوں کے قول کے مطابق تو ممکنات