کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 520
اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کی قدرت اس دوسرے سے مستفاد ہو اس لیے کہ یہ دوسرا اس کو قادر نہیں بنا سکتا یہاں تک کہ وہ خود قادر بنے اور جب ان میں سے کسی ایک کی قدرت بھی ذاتی نہیں ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی ایک کے لیے کسی بھی حال میں قدرت ثابت نہیں ہوگی۔ پس یہ واضح ہو گیا کہ عالم میں ایک سے زیادہ خداؤوں کا وجود ممتنع ہے ۔اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ واجب الوجود کے متعلق یہ ممتنع ہے کہ اس کو ایسا کمال حاصل ہو جس کا وہ غیر سے استفادہ کرتا ہو۔ اور واجب الوجود کے اندر غیر کی تاثیر بھی ممتنع ہے۔ اور حق سبحانہ وتعالیٰ اس کمال کا مستحق ہے جس سے اوپر کوئی اور منتہا (آخری حد)نہیں ؛ اور وہ کمال اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ اس لیے کہ وہ کمال جو کسی موجود کا کمال ہوتا ہے یا تو یہ اس کے لیے واجب ہوتا ہے یا اس پر ممتنع ہوتا ہے یا اس کے حق میں جائز اور ممکن دونوں ہوتا ہے : اگریہ واجب ہے تو یہی ہمارا مطلوب ہے۔ اور اگر وہ ممتنع ہے تو لازم آئے گا کہ وہ کمال جو کسی موجود کے لیے ممکن اور واجب کے لیے ممتنع ہے لہٰذا ممکن واجب سے اکمل ٹھہرے گا اور یہ تو عقل و نقل کے خلاف ہے۔ دوبارہ : اللہ تعالیٰ کا صفت ِ کلام پربحث: یادرہے کہ ممکنات کے اندر بھی کئی کمالات موجود ہیں جوواجب بنفسہ ذات سے مستفاد ہیں ۔ کمال کاخالق اور جو دوسرے کوکما ل بخشنے والا؛ اس کا خالق ہے وہ مخلوقات کی بہ نسبت اس کمال کا زیادہ حقدار ہے۔ کیونکہ یا تو کمال خود موجود ہوگا؛ یا پھر کسی کے وجود کا کمال ہوگا۔ اور جس نے موجود کو پیدا کیا وہ خود موجود ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔ کیونکہ معدوم کسی موجود میں مؤثر نہیں بن سکتا۔یہ تمام امور معلوم شدہ ہیں ۔ پس یہ واضح ہو گیا کہ اللہ کی ذات پر کمال ممتنع نہیں ۔ اور اگر اسے جائز اور ممکن سمجھا جائے کہ اس کی ذات کے لیے کمال کا حصول اور عدم حصول دونوں ممکن ہیں ۔ تو وہ اس کو حاصل نہیں ہونگے مگر کسی اور سبب سے۔ پس درایں صورت واجب الوجود اپنے کمال میں غیر کی طرف محتاج ٹھہرے گا۔ اس کا بطلان بھی ماقبل میں واضح ہو چکا ہے۔ پس واضح ہوا کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کمال لازم اور اس کے لیے واجب ہے اور اس سے صفت ِ کمال کا سلب ممتنع ہے۔ اور کمال تو امور وجودیہ میں سے ہے؛ پس امورِعدمیہ تو کمال نہیں ہوسکتا؛ سوائے اس صورت کے کہ وہ امورِ وجودیہ کو متضمن ہوں ۔کیونکہ عدمِ محض تو کوئی چیز ہی نہیں چہ جائے کہ وہ کمال بنے ۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب اپنی تنزیہ اور اپنی ذات سے نقائص کی نفی ذکر کرتا ہے تو صفاتِ کمال کے اثبات کے سیاق میں اسی کو بیان کرتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اللّہُ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلاَ نَوْمٌ﴾ (بقرہ:۲۵۵) ’’اللہ تعالیٰ وہ معبود برحق ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ؛ وہ زندہ اورقائم ہے؛ اسے نہ ہی اونگھ آتی