کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 518
ایک جزء غیر واجب ہے تو خود اس کی ذات بھی واجب نہ رہی جیسے اس کا بیان ماقبل میں گزرا ۔ نیز یہ بھی کہ فلک اطلس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اس کو عالم میں کچھ بھی تاثیر حاصل نہیں ؛ تو پھر یہ بھی ضروری ہوگا کہ وہ دوسرے افلاک کے لیے بھی محرک نہ ٹھہرے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ دوسرے افلاک اس کی حرکت کی وجہ سے متحرک ہیں ۔ اور ان کی حرکت فلک اطلس کے مخالف ہے۔ لہٰذا فلک واحد ہی کے اندر ایک ایسی قوت ہوگی جو دو متضاد حرکتوں کا تقاضا کریگی اور یہ بات ممتنع ہے اس لیے کہ دو ضدین آپس میں جمع نہیں ہو سکتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا مقتضی اس کے ضد کا مقتضی ہے جو اس کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا تو پھر وہ اس کے لیے فاعل بنے گا اس حال میں کہ وہ غیرِ فاعل ہو اور اگراس کا ارادہ کرنے والا ہے تو پھر ارادہ کرنے والا بنے گا اس حال میں کہ وہ ارادہ کرنے والا نہ ہے تو یہ تو دونوں تعبیروں پر جمع بین النقیضین ہوا۔ اگر اس کے لیے افلا ک کی حرکت میں تاثیر حاصل ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور اثر تو یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ تاثیر میں مستقل نہیں اس لیے کہ افلاک کے لیے فلکِ اطلس کی تحریک کے بغیرایک ایسی حرکت ثابت ہے جو ان کی ذات کے ساتھ خاص ہے اور اس وجہ سے بھی کہ بے شک زمین کے اندر جو آثار پائے جاتے ہیں ان کے اندر اجسام عنصریہ کا ہونا ضروری ہے اور وہ اجسام اگر اِن آثار کے لیے فاعل نہیں ہیں تو پھر وہ ایسے امر کی طرف محتاج ہیں جس نے ان کو وجود نہ دیا ہو اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ خود اس میں مؤثر ہے تو وہ مؤثرِ مستقل نہیں اس لئے کہ بے شک وہ آثار کہ جو زمین میں حاصل ہوتی ہیں ۔تو وہ ان اتصالات اور حرکات کے آپس میں جمع ہونے سے حاصل ہوتی ہیں جو اس زمین میں وجود میں آتی ہیں ۔ پس واضح طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس کی تاثیر غیر کی تاثیر کے ساتھ مشروط ہے اور ایسی صورت میں اس کی تاثیر اس کے کمال میں سے ہے اس لیے کہ مؤثر غیر مؤثر سے اکمل ہوتا ہے اور وہ اس کمال میں غیر کی طرف محتاج ہوتا ہے پس وہ واجب بنفسہ نہیں ہوتا توواضح طور پر معلوم ہوا کہ وہ ان دونوں وجہوں کے اعتبار سے واجب بنفسہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا فاعل اُن امور کے فاعل سے مستغنی نہیں ہے جن کی طرف فلک محتاج ہے کیونکہ فلک بھی ماسوا سے من کل وجہ مستغنی اور متمیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنے ماسوادیگر مصنوعات اور محدثات کی طرف محتاج ہے پس وہ واجب بنفسہ نہ ٹھہرا اور نہ ایسے فاعل کے لیے مفعول بنا جو اپنے ماسوا تمام فاعلوں سے مستغنی ہو۔ عالم میں ایک سے زیادہ خداؤوں کے وجود کا امتناع: جب فلک اطلس میں حال یہ ہے تو اس کے ماسوا کا حال تو نسبتاً زیادہ ظاہر اور واضح ہے پس عالم میں جس چیز کا بھی تو اعتبار کرے گا تو تو اسے عالم میں کسی اور چیز کی طرف محتاج پائے گا لہٰذایہ امر اس کے ممکن ،محتاج اور غیر واجب بنفسہ ہونے کیساتھ اس بات کی طرف بھی تیری رہنمائی کرے گی؛ کہ وہ اس دوسری چیز کے فاعل کی