کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 517
نہیں ہے کہ اس کی حرکت ہی ان حرکاتِ مختلفہ کا سبب بنے جو اس کی حرکت کے مخالف ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حرکت شرقیہ اس کا سبب ہے ۔[1]
جبکہ حرکات ِ غربیہ اس کے حرکت کی جہت کے متضاد اور مختلف ہیں ۔ پس وہ اس کا سبب بن ہی نہیں سکتا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں نیز یہ بھی کہ تمام افلاک فلک تاسع کے جوف میں ہیں اور یہ اس کی اختیار کے بغیر ہے اور وہ چیز جس کے اندر کوئی دوسرا اس کا غیر ڈال دیا گیا ہو بغیر اس کے اختیار کے تو وہ مقہور(مغلوب )اور مدبرَّ (جس سے نظام چلایا جارہا ہو)ہوتا ہے ۔جیسے کہ انسان جس کے باطن یعنی اس کے پیٹ کے اندر اس کی آنتیں اور دیگر نظام موجود ہیں تو وہ واجب بنفسہ نہیں بنتا ۔اور واجب بنفسہ کا کم ترین درجہ یہ ہے کہ وہ مغلوب نہ ہو۔ اور دوسرا اس کا انتظام چلانے کے لیے اس کو تشکیل نہ دے۔ اس لیے کہ جب وہ مجبور ہوتا ہے اور اس کو انتظام چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ مربوب بنتا ہے اور غیر اس کے اندر اثر کرتا ہے۔ اور جس کے اندر غیر مؤثر ہوتاہے تو اس کا وجود اس غیر کے اندر مؤثر ہوتا ہے چاہے وہ اثر صفتِ کمال ہو یا نقص۔
اس لیے کہ اگر وہ زیادت ہے تو اس کا کمال غیر پر موقوف ہے۔ اور اس کا کمال اسی سے مستفاد ہے۔ لہٰذا وہ موجود بنفسہ ہوا۔ اور اگر وہ نقص ہے؛ تو اس کے غیر نے اس کے اندر نقص پیدا کر دیا؛ اور ہر ایسی چیز جس میں غیر نقص پیدا کرے تو وہ چیز واجب الوجود نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ جو چیز واجب الوجود بنفسہ ہو؛ اس کا عدم ممتنع ہوتا ہے۔ اور وہ جزء کہ جو منقوص ہے یعنی اس کو کم کر دیا گیا ہے وہ واجب الوجود نہیں بن سکتا اور نہ واجب الوجود کے لوازم میں سے ہے۔ اور جو چیز بھی ایسی نہ ہو تو پھر اس کا عدم اور ناپید ہونا نقص نہیں بنتا۔ کیونکہ نقص تو کمال کا عدم کہلاتا ہے۔ اور وہ کمال جو کہ ممکن ہے واجب الوجود کے لوازم میں سے ہوتا ہے۔ جیسے کہ ماقبل میں گزرا ۔
اور یہ مفروض ایک نقص ہے۔ پس واضح طور پر ثابت ہوا کہ ہر ایسی ذات جس سے اس کا کوئی غیر کسی چیز کو کم کردے یعنی اس کی ذات کے لوازم میں سے یا اس کوکوئی ایسی چیز دیدے جو اس کے وجود کے لوازم میں سے ہو تو وہ واجب الوجود بنفسہ نہیں ٹھہرتا ۔
پس وہ فلک جس کے اندر بہت سے اجسام ِ کثیرہ اس کے اختیار کے بغیر سما دیئے گئے ہیں وہ محتاج ہے اس ذات کی طرف جس نے اس کے اندر ان اجسام کو بھر دیا ہے پس بے شک جب اس کا اندر سے بھر جانا اس کے لیے کمال ہے تو اس کا کمال اس غیر سے مستفاد ہے پس وہ واجب بنفسہ نہ ٹھہرا۔ لہٰذا وہ اس کے اندر نقص ہے تو غیر نے اس کے کمال کو سلب کر لیا ہے جو کہ اس کی ذات سے زائد تھا۔ پس اس کی ذات اس کمال کو مستلزم نہ ہوئی ۔ اس لیے کہ اگر وہ اس کو مستلزم ہوتی تو پھر اس کے عدم کے ساتھ یعنی اس کے کمال کے منتفی (ختم )ہونے کے ساتھ منتفی ہو جاتی۔ اور ا س کا کمال اس کے ذات کے تمام میں سے ہوتا۔ پس جب اس کے نفس اور ذات کا
[1] رسائل الکندی الفلسفیۃ ۱؍۲۳۸۔آراء أہل المدینۃ الفاضلۃ ص ۲۴۔ النجاۃ لابن سینا ۲؍ ۳۹۳۔