کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 516
پس جب دو ایسے واجب ذات فرض کر لیے جائیں جن میں سے ہر ایک کو دوسرے میں کچھ نہ کچھ تاثیر حاصل ہے؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اُس مؤثر کے اندر مؤثر ہو؛ جو اپنی ذات میں مؤثر ہے۔ اور یہ واضح طور پر ممتنع ہے۔ پس دو ایسی واجب ذاتوں کا فرض کرنا ممتنع ہوا جن میں سے ہر ایک دوسرے کے اندر کسی بھی طور پر مؤثر ہو۔تو پھر یہ بھی ممتنع ہوا کہ کوئی واجب بنفسہ ذات اپنے لوازم میں سے کسی بھی لازم میں غیر کی طرف محتاج ہو۔ خواہ یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ واجب ہے یا ممکن۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کے ذریعے اس امرکی امتناع بھی ثابت ہو گئی کہ عالم کے لیے دو صانع ہوں اس لیے کہ اگردو صانعوں میں سے ہر ایک مستقل بالذات ہے تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے معاونت کے بغیرتمام امور کو انجام دینے والا ہے۔ اور یہ اس صورت میں ممتنع لذاتہ ہے اگر ایک بعض کو کرنے والا ہے تو دوسرے کے استقلال میں خلل پڑتا ہے ۔ پس کیسے ہر ایک مستقل بذاتہ ہے؟یعنی اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر دو خداؤوں میں سے ہر ایک مستقل بذاتہ ہے تو گویا وہ عالم کے تمام امور کو خود اکیلے وجود دے سکتا ہے۔ تو جس صورت میں وہ بعض امور کو خود کرتا ہے اور بعض کو دوسرے کی مدد سے کرتا ہے تویہ اس دوسرے کے مستقل ہونے کے منافی ہے۔ تو جس صورت میں وہ تمام امور کو اس کے بغیر انجام دیتا ہے تو یہ تو بطریق اولیٰ دوسرے کے مستقل ہونے کے منافی ہے۔ اور یہی تقریر اس دوسرے الہٰ کے مستقل ہونے کو فرض کرنے کی صورت میں بھی ہے ۔اسی وجہ سے اکثر عقلاء کا ایک مؤثر (تاثیر قبول کرنے والے )کے اندر دو مؤثرِ تام کے امتناع پر اتفاق ہے۔ اس لیے کہ یہ تو جمع بین النقیضین ہے۔ کیونکہ اس اثر کا اس طور پر ہونا کہ یہ اس ایک مؤثر سے الگ وجود میں آیا؛تو یہ اس دوسرے مؤثر کے ذریعے وجود میں آنے کے مناقض اور منافی ہے۔ اور اگر وہ اس کے اندر شریک اور باہم تعاون کرنے والے ہیں ۔ پس اگر ان میں سے ہر ایک کا فعل دوسرے کے فعل سے مستغنی ہے تو یہ بات واجب ہے کہ ہر الہٰ اس چیز کو لے کر چلا جائے جو اس نے پیدا کیا ہے۔ پس اس صورت میں ایک کا مفعول دوسرے کے مفعول سے جدا ہو جائے گا۔ اوروہ اس کے ساتھ ارتباط کی طرف محتاج نہیں رہے گا۔ حقیقت حال اور مشاہدہ ایسا نہیں ؛ بلکہ عالم کے سارے اجزاء میں سے بعض بعض کے ساتھ متعلق ہیں ۔ اور یہ اُس سے تخلیق کردہ ہے؛ اوروہ اِس مخلوق ہے۔اور یہ اس اعتبار سے اِس کے محتاج ہیں ؛ اوریہ اس کے محتاج ۔ اورامورِ عالم میں سے کوئی چیز بھی دوسری چیز کی طرف احتیاج کے بغیر تام نہیں ہوتی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عالم پورے کا پورا غیر کی طرف محتاج اور فقیر ہے۔ اور اس بات پر بھی دلیل ہے کہ اس عالم کے اندر کوئی بھی فعل ایسا نہیں پایا جائے جسے دو خداؤوں نے انجام دیا ہو۔بلکہ سارے کا ساراجہاں ایک ہی اللہ کی طرف محتاج ہے۔
پس فلک اطلس جو کہ تمام افلاک میں اعلیٰ ہے؛ اور اس کے خلاء کے اندر باقی افلاک عناصر اور مولدات اور حوادث ہیں ۔ اور افلاک ایسی مختلف حرکات کے ساتھ متحرک ہیں جو تاسع کی حرکت کے بخلاف ہے۔ پس یہ جائز