کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 515
بغیر موجود نہیں ہو سکے گا پس یہ موجود بنفسہ نہ ٹھہرا بلکہ اس کا حال تو یہ ہوا کہ اگر وہ غیر پایا جائے گا تو یہ بھی اور اگر وہ نہیں پایا جائے گا تو یہ بھی معدوم ہوگا اور پھر غیر واجب بنفسہ نہیں ہے اور وہ کسی فاعل مبدع کی طرف محتاج ہے پھر اگر یہ بعینہ اول ہے تو علل کے اندر دور لازم آیا اور اگر یہ اس کے مغایر اور مبائن ہے تو پھر علل کے اندر تسلسل لازم آیا اور یہ دونوں باتفاق عقلاء ممتنع ہے جس طرح کہ کئی مقامات پر اسے بیان کیا گیا ہے۔
اور اگر وہ غیر خود واجب بنفسہ؛ موجود بنفسہ ہے اور اول بھی اسی طرح ہے؛ تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے وجود کے بغیر موجود نہیں ہوگا۔ اور دو چیزوں میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر موجود نہ ہونا جائز ہے۔ جبکہ ان کا سبب ان کے علاوہ کچھ اور ہو۔ یعنی ان کا سبب کوئی امر ثالث ہو جیسے کہ متضایفین جیسے کہ باپ ہونا یا بیٹا ہونا۔
اگر ان دونوں کا سبب ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ہو تو یہ دونوں ممکن ہونگے؛ اور واجب بنفسہ کی طرف محتاج ہونگے اور اس میں کلام اسی طرح جیسے ان دونوں میں کلام ہے۔
اور اگر وہ دونوں واجب بنفسہ ہوں تو یہ بات ممتنع ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا وجود یا ان میں سے کسی لوازم کا وجود دوسرے پر موقوف ہو اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے اندر علت کاملہ بنے گا یا جزء علت بنے گی۔ اس لیے کہ ہر ایک دوسرے کے بغیر تام نہیں ہوگا۔ اور ان میں سے ہر ایک کا علت بننا یا جزء علت بننا تب ہی ممکن ہے کہ جب وہ موجود ہے۔ ورنہ تو جو چیز موجود ہی نہیں ہوتی وہ غیر کے اندر مؤثر بھی نہیں بن سکتی نہ غیر کے لیے فاعل بن سکتی ہے پس یہ اس دوسرے کے اندر تب ہی مؤثر بنے گاحتی کہ یہ پایا جائے۔ اور یہ دوسرا اس کے اندر مؤثر تب ہی بنے گا جہاں تک کہ یہ پہلا پایا جائے ۔تو لازم آئے گا کہ یہ بھی اس کا وجود بھی اس دوسرے کے وجود پر موقوف ہو۔ اور اس کا اس پر موقوف ہو لہٰذا یہ ہر ایک دوسرے کا فاعل بنے گا اور یہ اس کا فاعل اور موجد بنے اور وہ اس کا فاعل اور موجد بنے اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ کسی چیز کا اپنے نفس کے لیے علت بننا یا اپنے نفس کے لیے علت کا جزء بننا؛ یا اپنے نفس کے لیے شرط بننا؛ یہ تمام امور ممتنع ہے۔
اس معنی کوجس عبارت کے ساتھ تعبیر کیا جائے پس وہ اپنے نفس کا فاعل یعنی موجب نہیں بنے گا اور نہ فاعل کا جزء بنے گا؛ نہ اپنے نفس کے فاعل کے لیے شرط بنے گا؛ اور نہ اس فاعل کے لیے تمام اور متمم بنے گا؛ اور نہ اس کے نفس میں مؤثر بنے گا؛ اور نہ مؤثر کا تمام بنے گا ۔لہٰذامخلوق اپنی ذات کے لیے رب نہیں بن سکتی۔ اور رب تعالی کی ذات کسی بھی طور پر مخلوق کی طرف محتاج نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ اپنی صفتِ خلق میں ان کی طرف محتاج ہو جائے تو گویا وہ ان کو وجود نہیں دے سکتا یہاں تک کہ وہ خود موجود ہو جائے اور یہ مخلوق تب ہی موجود ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرے تو یہاں دورِ قبلی لازم آیا نہ کہ دورِ معیت اور جب وہ اپنے نفس میں مؤثر نہیں بن سکتا تو اس مؤثر میں بھی یہ بطریقِ اولیٰ مؤثر نہیں بن سکتا جو اپنی ذات میں مؤثر ہے پس جب یہ بات فرض کر لی جائے۔