کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 514
معاونت کے بغیر کوئی کام سر انجام نہ دے سکتا ہو۔ اور ان میں سے ہر ایک کا مستقل ہونا بھی ممتنع ہے۔کیونکہ ایک کا استقلال دوسرے کے مستقل ہونے کے مناقض اور منافی ہے۔ اور اس کی مزید تفصیل آگے آئیگی۔ یہاں تو مقصود یہ ہے کہ یہ ممتنع ہے کہ ان دونوں صانع میں سے ایک دوسرے کو کمال دینے والا ہو۔ اور یہ بھی ممتنع ہے کہ واجب بنفسہ اپنے کمال میں غیر کی طرف محتاج ہو۔ پس یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ غیر کی طرف کسی بھی طور پر محتاج ہو۔کیونکہ افتقار یا تو کسی کمال کے حصول میں ہوتا ہے؛ یا کمال کو سلب کرنے والے امور کو منع کرنے میں ۔ پس بے شک اگر وہ کامل بنفسہ ہے اور کوئی غیر اس کا کمال سلب کرنے پر قادر نہیں ؛ تو وہ غیر کی طرف کسی طور پر بھی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ جو چیز اس کی ذات کے لیے کمال نہیں تو اس کے وجود اس کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ اس کی طرف محتاج ہے۔ اس لیے کہ کسی کی ایسی چیز کی طرف حاجت جو اس کا کمال شمار نہیں ہوتی یہ ممتنع ہے؛ اور یہ واضح طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ وہ غیر کی طرف اپنے کمال کے حصول میں محتاج نہیں ہے ۔ ایسے ہی وہ ان امور کے منع کرنے میں بھی غیر کی طرف محتاج نہیں ہے جو اس کے کمال کو اس سے سلب کرتے ہیں جیسے کہ اس کی ذات میں نقص کا داخل کرنا۔ اس لیے کہ اس کی ذات اگر اس کمال کو مستلزم ہے تو پھر ملزوم کا بغیر لازم کے وجود ممتنع ہے۔ پس یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ کمال اس کے واجب الوجود بنفسہ ہونے کے باوجود سلب ہوجائے ؛اور اس کے لوازم میں سے ہونے کی وجہ سے اس کا معدوم ہونابھی ممتنع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی ذات اس کے کمال کو مستلزم نہیں تو وہ اس کمال کے حصول میں غیر کی طرف محتاج ٹھہرا اور یہ واضح طور پر ثابت ہوا ہے کہ یہ بات تو ممتنع ہے پس معلوم ہوا کہ اس کا غیر کی طرف احتیاج کسی بھی چیز کے حصول میں یا کسی بھی چیز کے دفع کرنے میں اور اپنی ذات سے ہٹانے میں یہ ممتنع ہے اور یہی تو ہمارا مقصود ہے اس لیے کہ حاجت تو صرف اور صرف کسی چیز کے حصول کے لیے ہوتی ہے یا کسی چیز کے دفع کے لیے ہوتی ہے یا وہ حاصل ہوتی ہے اس کا ازالہ مراد و مقصود ہوتا ہے۔ یا ایسی چیز جو ابھی تک حاصل نہیں ؛ تو اس کو روکنا مطلوب ہوتا ہے۔ اور اس کے منع کی طرف اس کی حاجت ہوتی ہے اور جو چیز ایسی ہو کہ وہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے یا دوسرے چیز کو دفع کرنے میں غیر کی طرف محتاج نہ ہو تو اس کا محتاج ہونا مطلقاً ممتنع ہوتا ہے پس واضح طور پر ثابت ہوا کہ وہ ذات ہر اعتبار سے غیر سے مستغنی ہے ۔ اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہ غیر کی طرف محتاج ہے؛ پھر یہ دو حال سے خالی نہیں ۔یا تو یہ کہا جائے گا کہ یہ اپنے لوازمِ وجود میں کسی غیر کی طرف محتاج ہے؛ یا اپنے عوارض ذاتیہ میں سے کسی چیز کی طرف ۔ رہی پہلی بات تو یہ ممتنع ہے اس لیے کہ اگر وہ غیر کی طرف اپنے لوازمِ ذات میں کسی لازم میں محتاج ہے تو پھر تو اس کی ذات اس غیر کے بغیر موجود ہی نہ ہوگی اس لیے کہ ملزوم کا لازم کے بغیر وجود ممتنع ہے پس جب وہ اپنے لازم کے بغیر موجود ہی نہیں ہو سکتا اور اس کا لازم اس غیر کے بغیر موجود نہیں ہو سکتا پس یہ چیز بھی اس غیر کے