کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 512
تم سے یہ بھی کہا جائے گاکہ ’’واجب بنفسہ ‘‘اور ’’ممکن بنفسہ ‘‘کا لفظ تمہارے خطابات اورتمہارے اقوال میں ایک مشترک لفظ (کے طور پر مستعمل ) ہے۔ پس بسا اوقات تو واجب بنفسہ سے ایسی ذات مراد لی جاتی ہے جس کے لیے کوئی پیدا کرنے والا نہ ہو نہ اس کے لیے کوئی علتِ فاعلہ ہو۔ اور واجب بنفسہ سے مراد کبھی وہ لیا جاتا ہے جس کے لیے کوئی مبدأ اور محل نہ ہو۔ اور وہ واجب بنفسہ سے وہ ذات بھی مراد لی جاتی ہے جس کے لیے کوئی صفت ِ لازمہ نہ ہو اور وہ کسی بھی صفت کے ساتھ موصوف نہ ہو اور ملزوم نہ ہو۔ اگر تم نے واجب بنفسہ سے وہ ذات مراد لی ہے کہ جس کے لیے کوئی پیدا کرنے والا اور علتِ فاعلہ نہیں ؛ تو صفت بھی واجب بنفسہ ہے۔اور اگر تمہاری مراد وہ ذات ہے کہ جس کا کوئی ایسا محل نہ ہو جس کے ساتھ وہ قائم ہو؛ تو صفت پھر واجب بنفسہ نہیں ہوگی ؛ بلکہ موصوف واجب بنفسہ ہوگا ۔اگرواجب سے تمہاری مراد ایسی ذات ہے جو کسی بھی صفت کے لیے نہ لازم ہے اور نہ ملزوم؛ تو اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ بلکہ یہ بات تو صرف ذہنوں میں پائی جا سکتی ہے نہ کہ اعیان او رمحسوسات میں ۔ اور تم نے پہلے ایک بات اپنے ذہنوں میں فرض کر لی ہے اور پھر اس کی ایسی صفات سے موصوف کیا جن کے ساتھ اس کا ثبوت ممتنع ہے ؛پس تم نے واجب الوجود بنفسہ کو ممتنع الوجود قرار دیا ہے ۔اس کی تفصیل کی جگہ اس کے علاوہ ایک اور مقام ہے یہاں پراس پر صرف تنبیہ کرنامقصود ہے۔ کیونکہ اس مقام میں مقصود ہر دو مفروضی صورتوں میں حاصل ہو سکتا ہے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ واجب الوجود بنفسہ کی صفات کو ثبوت مانا جائے؛ اور اسے ترکیب کہا جائے یا نہ کہا جائے؛ یا اس کی ذات کاانکار کیا جائے ،ہر حال میں یہ امرممتنع ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی مبائن کی طرف محتاج ہو۔ اور یہ اس لیے کہ جب یہ فرض کر لیا جائے کہ اس کی ذات میں کسی طور پر بھی معانی متعددہ نہیں پائے جاتے؛ جس طرح کہ منکرین صفا ت کا خیال ہے؛ تو پھر یہ امر ممتنع ہے کہ اس کا کوئی ایسا کمال ثابت ہو جو اس کی ذات کے مغایر ہو۔ اوردو چیزوں کا مجموع ہونا بھی ممتنع ہے۔ایسی صورت میں اگر اس کی ذات میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جو غیر کی طرف مفتقر ہے تو پھر تو معانی کا تعدد لازم ہوا اور یہ دونوں تقدیرین پر ممتنع ہے ۔ اگر کہا جائے کہ اس میں معانی متعددہ ہیں ۔ پس واجب الوجود ان امور متلازمہ کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک چیز کے بغیر دوسری کا وجود ممتنع ہے۔ پس ایسی صورت میں اگر اس مجموعہ میں سے کوئی چیز کسی امر منفصل کی طرف محتاج ہے تو وہ واجب الوجود نہیں ہوا ۔پس حق سبحانہ وتعالیٰ تو اس کی حیات ،علم ،قدرت اور باقی صفاتِ کمال کو مستلزم ہے۔ وہ موجود اور واجب بنفسہ ہے؛ اور یہ صفات اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں اور ان کی ذات اس کو مستلزم ہے۔ اور وہ اس کے اسمِ ذات کے مسمیٰ میں داخل ہیں ۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے باقی اسماء میں بھی داخل ہیں پس جب وہ واجب بنفسہ ہیں اوروہ صفات اس کے ذات کے اسم کے مسمیٰ میں داخل ہیں یعنی ذات کے جو نام ہیں ان کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات صرف اور صرف ان صفات ہی کے ساتھ موجود ہو