کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 510
تو جزء پایا جائے گا]۔ بے شک لوگوں کا جسم کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا وہ مادہ اور صورت سے مرکب ہے یا جواہرِ فردہ سے مرکب ہے؟ یا نہ اِس سے اور نہ اُس سے مرکب ہے؟ تین اقوال ہیں ۔ اکثر عقلاء نے تو تیسرا قول اختیا رکیا ہے ۔ جیسے ہشامیہ ،نجاریہ ،زراریہ ،کلابیہ اور اشعریہ اور بہت سے کرامیہ اور بہت سے فقہاء محدثین اور صوفیاء اور فلاسفہ وغیرہ ۔ اوریہاں پر مقصود یہ ہے کہ اصطلاحات کے حساب سے لفظ جزء کے بہت سے معانی ہیں ۔ ایسے ہی لفظ ’’غیر ‘‘ہے اس سے مراد وہ چیز بھی لی جاتی ہے جو دوسری چیز سے جدا ہو۔ پس موصوف کی صفت اور اس کا جزء؛ اس اصطلاح کے اعتبار پر اس کا غیر نہیں۔ اور یہ نظریہ کلابیہ اور اشعریہ پر غالب ہے۔ اور بہت سے محدثین اور صوفیاء اور آئمہ اربعہ کے اتباع فقہاء کے نزدیک؛اور بہت سے روافض کے نزدیک؛ وہ بسا اوقات کہتے ہیں کہ:’’ دو غیر کا مصداق یہ ہے؛ کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوسکتے ہوں ؛ خواہ زمانہ کے اعتبار سے ایسا ہو ،یا مکان یا وجود کے اعتبار سے مفارقت اور جدائی ممکن ہو۔ یہی معتزلہ ،کرامیہ اور ان کے موافقین جو شیعہ اور فلاسفہ میں سے ہیں ان کی غالب اصطلاح ہے۔ ایسے ہی لفظ ’’افتقار ‘‘ہے کہ اس سے مراد تلازم لیا جاتا ہے۔ اور اس سے معلول کا علتِ فاعلہ کی طرف احتیاج بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اور یہ ان فلاسفہ کی اصطلاح ہے جو لفظ علت کو علتِ فاعلیہ، غائیہ ،مادیہ اور صورت میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’ مادہ۔ جو قبول کرنے والا ہے ۔ اور صورت ؛ یہ دونوں ماہیت کے لیے علت ہیں ۔ اور فاعل اور غایت یہ دونوں حقیقت کے لیے وجود ہیں اور رہے باقی اہل نظر تو وہ اس محل کو علت نہیں کہتے جو قبول کرنے والا ہے ۔ منکرین صفات فلاسفہ اور ان کے موافقین کے دلائل پر بحث: اس حجت پر مناقشہ جس سے فلاسفہ اور اُن کے موافقین نے صفات کی نفی پر استدلال کیا ہے۔ [اعتراض ]: جس دلیل سے فلاسفہ اور ان کے موافقین نے صفات کی نفی پر استدلال کیا ہے یہ چند مجمل الفاظ سے مرکب ہے۔جب وہ کہتے ہیں کہ: اگر اللہ تعالیٰ کی ذات علم ،قدرت اور اس جیسی صفاتِ کمال سے موصوف ہے تووہ مرکب ٹھہرا۔ مرکب تو جزء کا محتاج ہوتاہے۔ اور ہر چیز کاجزء اس کا غیرہوتا ہے۔ اور غیر کی طرف محتاج واجب بنفسہ نہیں بن سکتا ۔ [ جواب ]: یہ کہا جائے گا کہ تمہارا یہ کہنا ’’لکان مرکبا‘‘ یعنی اگر وہ موصوف ہوگا تو وہ مرکب ہو گا۔ اگر اس سے تمہاری مرادیہ ہے کہ کسی غیر نے اس کو ترکیب دیا ہے یا پھر یہ کہ وہ افتراق اور انتشارِ اجزاء کے بعد مجتمع ہوگیا؛ یا وہ تفریق کو قبول کرسکتاہے؛ تو ان تمام معانی کے اعتبار سے لفظ ’’مرکب ‘‘ کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر باطل ہے ۔ اس