کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 51
ان لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اللہ کے بندوں کی نصرت کی خاطر اس کتاب میں موجود گمراہیوں اور باطل دعووں کو طشت از بام کروں ۔ اور ان افتراء پردازوں کے جھوٹے اقوال کی قلعی کھول کر رکھ دوں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس کتاب کے بارے میں خواہ ان کے دعوے کیسے بھی کیوں نہ ہوں ؛ مگرخود یہ لوگ سب سے [1]
[1] بادشاہ اور چنگیز کی چھٹی پشت میں سے تھا، اس کا اصلی نام الجایتو(المتوفی ۶۸۰۔۷۱۶) ہے۔ اس کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: ۱۔ الجایتوبن (۶۸۰۔ ۷۱۶) ۲۔ار غون ۹۶۰ھ ۳۔ابغاغون ۶۸۱ھ ۴۔ ہلاکو غون ۶۶۳ھ ۵۔ تولی غون ۶۲۸ھ ۶۔ چنگیز غون (۵۴۹۔ ۶۲۴) چنگیز کا لقب ایلخان تھا، یہ سلطنت اسی کی جانب منسوب ہے، خدا بندہ کا والد ارغون صنم پرست تھا، ارغون کا چچا نکودار بن ہلاکو سیاسی مصلحت کے پیش نظر مسلمان ہو گیا تھا اور اپنا نام احمد نکو دار رکھ لیا تھا۔ ارغون نے خراسان میں اسکے خلاف بغاوت کر کے ۶۸۳ء میں اسے قتل کر دیا اور اس کی سلطنت پر قابض ہو گیا۔ ارغون نے اپنے والد کے وزیر شمس الدین محمدی کے خلاف یہ بہتان باندھا کہ اس نے زہر دے کر اس کے والد کو ہلاک کر دیا ہے اس جرم میں وزیر اور اس کے چار بیٹوں کو ہلاک کر کے عنان سلطنت اپنے یہودی طبیب سعداﷲ کے سپرد کر دی، اور خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگا، جب یہودی طبیب ملک کا نظم و نسق سنبھالنے سے قاصر رہا اور ملک میں بد امنی کا دور دورہ ہوا تو اعمال سلطنت نے اسے تہ تیغ کر دیا چنانچہ ارغون ۶۹۰ھ میں بڑی بے کسی کی موت مرا، ارغون کے دو بیٹے تھے : ۱۔ الجایتو جسے خدا بندہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ۲۔ غازان المتوفی (۶۷۰۔ ۷۰۳)، چونکہ رعایا مسلمان تھی، لہٰذا یہ دونوں سیاسی مصلحت کے پیش نظر مسلمان ہو گئے۔ غازان نے اہل سنت کا مذہب اختیار کیا۔ جب۷۰۳ھمیں اس کا بھائی خدا بندہ اس کا قائم مقام قرار پایا۔ تو اس نے شیعہ مذہب اختیار کیا، اس کے امراء وخواص اکثر شیعہ تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ خدا بندہ نے ایک روز اپنی بیوی سے ناراض ہو کر اسے طلاق دے دی پھر جلدی ہی نادم ہو گیا اور اسے گھر میں آباد کرنا چاہا، اہل سنت علماء نے متفقہ فتوی دیا کہ دوسرے خاوند سے نکاح کیے بغیر خانہ آبادی کی کوئی صورت ممکن نہیں ۔خدا بندہ کو بڑی مشکل پیش آئی، اس کے شیعہ خواص و امراء نے مشورہ دیا کہ شہر حلّہ کے مشہور شیعہ عالم ابن المطہر کو بلا کر مشورہ کیجئے، وہ اس کا کوئی حل پیش کرے گا۔ ابن المطہر حاضر ہوا تو سلطان نے صورت مسئلہ پیش کر دی۔ ابن المطہر نے پوچھا: کیا آپ نے دو عادل گواہوں کے سامنے طلاق دی تھی؟ سلطان نے کہا: نہیں !ابن المطہر نے کہا: چونکہ طلاق کے شرائط موجود نہیں لہٰذا طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اور سلطان حسب سابق اپنی بیوی کو آباد کر سکتا ہے۔ بادشاہ اس فتویٰ سے بہت خوش ہوا اور ابن المطہر کو اپنا خصوصی مصاحب بنا لیا۔ ابن المطہر کے بہکانے سے خدا بندہ نے دیار و امصار میں حکم ارسال کیا کہ منبر پر خطبہ دیتے وقت بارہ ائمہ کا نام لیا جائے۔ ائمہ کے نام سکول اور مساجد کی دیواروں پر کندہ کیے جائیں ، ابن المطہر کی حیلہ جوئی نے سلطان کو اس زحمت سے بچا لیا کہ اس کی بیوی عقد ثانی کے بعد اس کے یہاں لوٹ کر آتی، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت میں شیعہ مذہب نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے، یہ خراسان و ایران میں سرکاری طور پر تشیع کی جانب پہلا قدم تھا، کہا جاتا ہے، کہ یہ واقعہ ۷۰۷ھ میں پیش آیا۔ اس واقعہ کے تین سو سال بعد شیعہ مذہب کی جانب دوسرا قدم اٹھا جس نے سلطنت صفویہ کے قیام سے پورے ایران کو تشیع کے آتشی کنویں میں دھکیل دیا۔ متقدمین شیعہ جن افکار و آراء کو غلو سے تعبیر کیا کرتے تھے، اور ان کے معتقد کی روایت کو تسلیم نہیں کیا کرتے تھے، سلطنت صفویہ ان کی پشت پناہی کرنے لگی، اور سب شیعہ غالی بن گئے، جو انکار و معتقدات متقدمین شیعہ کے یہاں غلو تصور کیے جاتے تھے، صفوی دور میں ان کو ضروریات مذہب میں سے سمجھا جانے لگا، چنانچہ شیعہ کے دوسرے بڑے علامہ المامقانی المتوفی (۱۲۹۰، ۱۳۵۱) نے اپنی کتاب تنقیح المقال میں جو جرح و تعدیل میں بے حد اہم کتاب ہے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔