کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 509
اہل سنت تو اللہ کی صفات کو اس کے لیے ثابت مانتے ہیں اور بہت سے فلاسفہ اور روافض ان کے ساتھ اس میں موافق ہیں ۔رہے جہمیہ اور ان کے علاوہ دیگر جیسے معتزلہ اوران کے موافقین یعنی شیعہ اور فلاسفہ میں سے جیسے ابن سینا اور اس کے امثال ،وہ اللہ تعالیٰ سے صفات کی نفی کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت کرنا تجسیم ،تشبیہ اور اللہ کی ذات کو مرکب کہنے کے مترادف ہے۔
صفات الٰہی کی نفی پر فلاسفہ کی بڑی دلیل : ترکیب کا عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی ذات سے صفات کی نفی پر فلاسفہ کی بڑی دلیل جو کہ’’ حجت ِ ترکیب ‘‘کہلاتی ہے ۔
ابن سینا اور اس کے امثال کی بڑی دلیل اللہ کے صفات کی نفی پر حجت ترکیب ہے؛یعنی اگر اللہ کے لیے کوئی صفت ثابت ہو جائے تو پھر اللہ کی ذات مرکب ہو گی۔ اور مرکب اپنے أجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور اس کے أجزاء اس کے غیر ہوتے ہیں ۔ اور غیر کی طرف محتاج ہونے والی ذات واجب بنفسہ نہیں بن سکتی۔
لوگوں نے اس حجت کے ابطال پر کئی طرح سے کلام کیا ہے۔کیونکہ لفظِ ’’ترکیب ‘‘اور لفظ ’’جزء ‘‘اس طرح لفظ ’’افتقار ‘‘اور لفظِ ’’غیر ‘‘یہ تمام الفاظ مجمل ہیں ۔ [یعنی ان کے مفہوم کے اندر کئی معانی کی تاویل کی گنجائش ہے]۔
پس مرکب سے وہ چیز مراد لی جاتی ہے جو غیر نے ترکیب دی ہو اور پہلے متفرق تھی ؛پھر وہ جمع ہوگئی ۔اور ایسے ہی وہ چیز بھی اس کا مصداق ہے ’’جو تفریق کو قبول کرتی ہو ‘‘یہ ساری تفاسیر کی گئیں ہیں اور بالاتفاق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان تمام معانی کے اعتبار سے مرکب کے مصداق ہونے سے منزہ ہیں ۔
رہی وہ ذات جو ایسی صفات کیساتھ موصوف ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں ؛ پس اگر اس کو کوئی ترکیب کہہ دے تو یہ اس کی خاص اصطلاح ہو گی کہ؛ یہ لفظ ’’مرکب ‘‘کا عام مفہوم اور مصداق نہیں ہوگا۔
جب عقلی معانی میں بحث ہوتی ہے تو اس میں الفاظ کو نہیں دیکھا جاتا۔ پس ان سے یہ کہا جائے گا کہ فرض کر لیں کہ تم نے اس کو ترکیب کہہ دیا ؛ تو اس کی نفی پر تو تمہارے ہاں کوئی دلیل نہیں ۔ ان کے ساتھ امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے ’’تھافت ‘‘میں مناظرہ کیا تھا؛ [اور دلیل کے ساتھ مقابلہ کیا ہے] ۔
ایسے ہی لفظِ ’’جزء ‘‘ سے کسی مرکب چیزکا بعض حصہ بھی مراد لیا جاتا ہے؛ جیسے کہ نباتات اور أطعمہ [کھانے ] اور مبانی[عمارتوں ] ؛وغیرہ کے اجزاء ۔ اور وہ بعض جسے’’ کل‘‘ سے جداکرنا ممکن ہو؛ تو اسے بھی جزء کہا جاتا ہے ۔ جیسے انسان کے اعضاء اس کا جزء ہیں ۔ اور اس سے کسی چیز کی صفت ِ لازمہ بھی مراد لی جاتی ہے؛ جیسے حیوان کے لیے حیوانیت ، انسان کے لیے انسانیت اور ناطق کے لیے ناطقیت۔ اور اس لفظ سے وہ بعض بھی مراد لیا جاتا ہے جس کی مزید تفریق ممکن نہیں ہوتی ؛جیسے جسم کاوہ جزء جسے جدا کرنا ممکن نہ ہو؛ خواہ وہ جوہرِ فرد ہو یا مادہ اور صورت ہو۔اس کے قائلین کے نزدیک یہ جزء نہیں پایا جا سکتا؛ مگر کسی جسم کے وجودکے ساتھ۔[ یعنی جب جسم پایا جائے گا