کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 508
کہ واجب الوجود بذات خود اکمل الموجودات ہے۔ کیونکہ واجب بدیہی عقل کے ساتھ ممکن کے بہ نسبت اکمل ہوتا ہے ۔ پس ہر ایسا کمال جو اس کی ذات کے لیے ممکن ہے اگر وہ اس کے ساتھ لازم ہے تو پھر یہ امرممتنع ہے کہ اس کا کمال غیر سے مستفاد ہو یا اس میں غیر کی طرف محتاج ہو۔ اور اگر وہ اس کی ذات کے ساتھ لازم نہیں ہے تو پھر اگر وہ دیگر ممکنا ت کی بہ نسبت اس کو زیادہ قبول کرنے والا نہیں ہے تو پھر ممکن تو واجب کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہوا اور جس امر کو واجب اورممکن دونوں قبول نہ کرتے ہوں تو پھر وہ کمال ہی نہیں ۔اور اگر وہ اس کو قبول کرنے والا ہے اور اس کی ذات اس کو مستلزم نہیں تو اس کا غیر اس کادینے والا ہے۔ پھر کمال کا دینے والا وہی احق بالکمال ہوتا ہے پس وہ معطی اس کی بہ نسبت اکمل ہوا اور واجب الوجود اکمل کا غیر اس سے اکمل نہیں ہوتا ۔ ’’اور اگر کہا جائے کہ اس کا غیر بھی واجب ہے۔‘‘ [تو اس کا جواب یہ ہے کہ]: اگر وہ کامل بنفسہ نہیں ہے تو ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے کمال کا معطی ہوا یعنی کمال دینے والا ہوا اور یہ امرممتنع ہے اس لیے کہ یہ اس امرکو مستلزم ہے کہ دونوں میں ہر ایک دوسرے کے اندر ایسے تاثیر کے ساتھ مؤثر ہو کہ وہ دوسرے کے تاثیر کے بعد حاصل ہو پس بے شک وہ کمال دوسرے کو دیتا ہی نہیں تو وہ کامل کیسے بنے گا ۔ وہ کامل بنتا ہی تب ہے کہ دوسرا اس کو کمال دے تو یہ تو ممتنع ہے جس طرح یہ امرممتنع ہے کہ یہ شے موجود نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ دوسرا شے اسے وجود دے اور وہ دوسرا شے بھی تب وجود پائے گا جب کہ یہ پہلا اس کو وجود دے اگرچہ وہ غیر واجب اور کامل بنفسہ ہو اور مکمل للغیر ہو اور دوسرا ایسا واجب ہو جو ناقص ہے اور اپنے کمال میں اُس کامل مکمل کی طرف محتاج ہے پھر اس کی طرف اس کاایک جزء محتاج ہوا اور جس چیز کا کوئی جزء غیر کی طرف محتاج ہوا تو اس کا جملہ اورکل واجب بنفسہ ہر گز نہیں بن سکتا ۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ واجب بنفسہ ذات یا تو ایک ہی چیز ہوگی جس کا کوئی جزء نہ ہو یا وہ کئی اجزاء پر مشتمل ہوگی۔ اور اگر وہ ایک ہی چیز ہے یعنی اس کا جزء نہیں ؛ تو اس کے حق میں یہ بات ممتنع ہے کہ اس کے لیے کوئی بعض یا جزء ثابت ہو؛ چہ جائے کہ یہ کہا جائے کہ اس کا بعض غیر کی طرف محتاج ہے اور بعض نہیں ۔ اور یہ بھی درست ہے کہ دو ایسی چیزیں ہوں جن میں سے ایک نفس ِ چیز ہو اور دوسرا اس کا کمال ہو۔ اگر کہا جائے کہ یہ دو جزء ہیں یا کئی اجزاء ہیں ؛ توواجب اِن اجزاء کا مجموعہ ہوگا۔ پس ایسی صورت میں بھی وہ واجب بنفسہ نہیں قرار پائے گا یہاں تک کہ وہ مجموعہ پورے کا پورا واجب بنفسہ بن جائے۔ پس جب بعض اجزاء ایک ایسے سبب کی طرف محتاج ہیں جو مجموعہ سے جداہے تو یہ بھی ایسی صورت میں واجب بنفسہ نہ ٹھہرا اور یہ مقام اس شخص کے لیے ایک ایسا واضح برہان ہے جو اس میں غور کرے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے صفات کے باب میں اختلاف کیا ہے۔ پس