کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 503
پس بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ جس نے سیدھی راہ کی اتباع کی وہ سیدھی راہ جو ہم تک آتی ہے اور یہ وہی راستہ ہے جس کو رسول لے کر آئے تو وہ گمراہ نہیں ہوگا اور نہ بد ببخت ہوگا اور جس نے اس کے ذکر سے اعراض کیا اور ذکر وہی ہے جس کو اللہ نے نازل کیا اور وہ اللہ کی وہ کتابیں ہیں جو رسولوں کو دے کر اللہ نے انہیں بھیجا اس دلیل پر کہ پھر اللہ نے یہ فرمایا:
﴿ قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنسَی﴾ ( طٰہٰ ۱۲۶)
’’ فرمایا: یونہی تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائیگا۔‘‘
ذکر مصدر ہے جو کبھی فاعل کی طرف اور کبھی مفعول کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ جس طرح کہ کہا جاتا ہے کہ’’دق الثوب ‘‘ اور دق القصار۔‘‘اورکہا جاتا ہے: أکل ُزید ؛ اور’’أکلُ طعام۔‘‘ اس طرح کہا جاتا ہے :’’ذکر اللہ۔‘‘یعنی بندے کا اللہ کا ذکر کرنا(یعنی مصدر مبنی للمفعول )۔اور کہا جاتا ہے کہ:’’ ذکر اللہ‘‘ یعنی اللہ کا وہ ذکر جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کا ذکر اور اس کی یاد ہے (یعنی مصدر مبنی للفاعل )۔ اور جیسے کہ وہ قرآن جو اللہ ہی کا ذکر ہے اور کبھی ذکر کی اضافت ایسی ہوتی ہے جس طرح کہ اسمائے محضہ کی اضافت پس آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’ذکر ی‘‘اگر اس کی اضافت مصادر کے اضافت کی طرح ہو تو پھر معنی یہ ہوگا کہ وہ ذکر جو میں نے کیا ہے اور وہ اس کا کلام ہے جو اس نے نازل کیا ہے اور اگر اس کی اضافت اسمائے محضہ کے اضافت کی طرح ہو تو پھر اللہ کا ذکر وہی ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے یعنی ذکر میں سے اورقرآن وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَہَذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ أَنزَلْنَاہُ ﴾( انبیاء :۵۰)
’’اور یہ ایک با برکت نصیحت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ مَا یَأْتِیْہِم مِّن ذِکْرٍ مَّن رَّبِّہِم مُّحْدَثٍ ﴾( انبیاء: ۲)
’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو تازہ دم ہو۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِیْنٌ ﴾( یسٰین :۶۹ )
’’بیشک وہ ذکر اور قرآن مبین ہے۔‘‘
ایسے ہی سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ﴾( نحل :۴۴ )