کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 502
سے ممتنع ہے۔ اور یہ دلیل اس کلام کی اصل اور بنیاد ہے کہ جس کی سلف نے مذمت کی ہے اور اس پر عیب لگایا ہے ۔ کیونکہ وہ اس کو ایسا باطل سمجھتے ہیں جونہ کسی حق کو ثابت کر سکتاہے اورنہ ہی کسی باطل کو منہدم کر سکتا ہے۔اور اس پر مسئلہ حدوث میں کلام گزر چکا ہے۔اور اس مسئلہ کی پوری وضاحت یوں ہے کہ:
پانچویں وجہ:.... ہم کہتے ہیں :’’ لوگوں پر اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا واجب ہے۔اور انہوں نے جن امور کی خبر دی ہے اس میں ان کی تصدیق کرنا؛ اور جو حکم دیا ہے اس کی اطاعت کرنا؛ یہ سعادت کی بنیاد اورجامع ہے۔ اور سارا قرآن اس اصل کوتاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
﴿الم (1)ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (2)الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ (3)والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ(4)أُوْلَـئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ( بقرۃ۱ تا ۵)
’’الٓمٓ۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں ، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں ۔اور وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں ۔یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے بڑی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں ۔‘‘
پس تحقیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں مومنوں کو ہدایت اور فلاح کے ساتھ موصوف کیاہے اور اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نیچے اتارا تو فرمایا:
﴿ قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعاً بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمَی وَقَدْ کُنتُ بَصِیْراًo قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنسَی﴾ ( طٰہٰ ۱۲۳ تا ۱۲۶)
’’فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔‘‘