کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 501
موصوف کیا جیسا کہ ان کا یہ کہنا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ ﴾( آل عمران: ۱۸۱) ’’ بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان کایہ قول نقل کیا ہے: ﴿ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ ﴾(مائدہ: ۶۴ ) ’’اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔‘‘ اس کے امثال اور یہ ایک ایسا امر ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات معاد اور حشر و نشر کی بہ نسبت عقل و نقل کے اعتبار سے زیادہ اظہر ہیں پس جب معاد کے نصوص میں تحریف جائز نہیں تو ان میں (اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات معاد اور حشر و نشر کی آیات ونصوص)بطریقِ اولیٰ جائز نہیں اور یہ امور ایک اور مقام پر تفصیلا بیان ہو چکے ہیں ۔ دوسراجواب :.... ان کو کہا جائے کہ اس دلیل کی کمزوری معلوم ہے اس لیے کہ جب یہ ایک حادث دائم نہیں اور یہ دوسرا حادث بھی دائم اور باقی نہیں تو یہ بات واجب ٹھہری کہ نوعِ حوادث کے لیے بھی دوام اور بقا ثابت نہ ہو جس طرح کہ جب یہ ایک خاص حادث مشار الیہ کے لیے بقا ء ثابت نہیں ہے اور اس دوسرے حادث کے لیے بھی بقا کی صفت حاصل نہیں تو یہ واجب ہے کہ نوعِ حوادث کے لیے بھی بقا نہ ہو بلکہ ان کے لیے مستقبل کے اعتبا ر سے بقا ء اور دوام ثابت ہے اور کتاب و سنت اور اجماعت سلف اور جمہور کے نصوص سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ ) ’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘ اور مراد یہاں پر دوامِ نوع ہے نہ کہ ہر ہر فرد کا دوام ۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ﴾ ( توبہ: ۲۱) ’’جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے۔‘‘ اور صفتِ دوام کے ساتھ متصف اس (مقیم )کا نوع ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِنَّ ہَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِن نَّفَادٍ ﴾( ص ۵۴ ) ’’بلاشبہ یقیناً یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لیے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔‘‘ تو مراد یہ ہے کہ اس کا نوع ختم نہیں ہوگا اگرچہ اس کا ہر ہر جزء تو ختم ہو جائے گا؛قصہ تمام ہو جائے گا۔ اور مزیدبرآں یہ بات تو بغیر کسی سبب کے حوادث کے پیدا ہونے کو مستلزم ہے؛جو کہ صریح عقل کے اعتبار