کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 500
دیا تو اس کا قول باطل ہے جو ان امور کے فساد پر مشتمل ہے جو کہ عقلی ہے بلکہ امورِ نقلیہ کے فساد کو بھی مستلزم ہے۔ نیز یہ بھی کہ عامۃ الناس کی لغت میں لفظ ’’وہم ‘‘سے خطاء مراد ہوتی ہے اور تو نے تو اس سے ایک ایسی قوت مراد لے لی جو اجسام میں ان معانی کا ادرا ک کرتی ہے جو محسوس نہیں ہوتے اورایسی صورتِ حال میں اس امتناع کا فیصلے کرنے والے نے اگر اس کا فیصلہ کسی غیر جسم میں کیا ہے تو وہ وہم نہیں اور اگر اس نے کسی جسم کے بارے میں فیصلہ کیا ہے تو پھر اس کا حکم اور فیصلہ صادق ہے پس کیوں تو نے یہ کہا کہ یہ اُن امور میں وہم کا فیصلہ ہے جن میں اس کا حکم اور فیصلہ قابل قبول نہیں اور یہ بات بھی بداہۃ معلوم ہے کہ جس چیز کا فطرتِ سلیمہ فیصلہ کرتی ہے یعنی قضایا کلیہ معلومہ میں سے تو اس میں ایسے امور نہیں ہیں جن میں سے بعض وہمِ باطل کے فیصلے سے حاصل ہوں اور بعض عقلِ صادق کے فیصلے سے حاصل ہوں اوربتحقیق یہ بات کہ ’’یہ خاص فیصلہ وہمِ باطل کا فیصلہ ہے ‘‘یہ تو تب معلوم ہو سکتا ہے جب کہ اس کا بطلان معلوم ہو جائے اور رہی یہ صورت کہ کوئی شخص اس کے بطلان کا دعویٰ کرے محض اس کے حکم وہم ہونے کی وجہ سے تو یہ غیر ممکن ہے اور ان امور کی تفصیل کا مقام ایک اور ہے یہاں تو مقصود یہ ہے کہ اس مبتدِع (نئی بات نکالنے والا)اور اس کے امثال یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے اس کے صفات کی نفی کرتے ہیں یعنی جہمیہ اور معتزلہ میں سے اور ان کے موافقین فلاسفہ وہ اپنے اقوال میں کسی میں بھی صحیح دلیل نقلی یا عقلی پر اعتماد نہیں کرتے رہے (یعنی اپنی مدعا پر صحیح دلیل نہیں رکھتے ) رہے دلائل نقلیہ تو ان میں سے کسی کے پاس اس معاملے میں ایک بھی ایسی نص نہیں ہے جو ان کے قول پر قطعی دلالت کرے یا ظاہری اعتبار سے۔ بلکہ کتاب و سنت کے نصوص ظاہرہ تو ان کے قول کے نقیض پر دلالت کرتے ہیں اور ان کی دلالت اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات پربنسبت معاد اور ملائکہ وغیرہ پر دلالت کرنے کے زیادہ بڑھ کر ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ان دہریہ کو مسلط کر دیا جو قیامت اور معادِ ابدان کے منکر تھے اور انہوں نے یہ کہا کہ جب تمہارے لیے یہ بات جائز ہے کہ تم اُن نصوص میں تاویل کرو جو صفاتِ باری تعالیٰ میں وارد ہیں تو ہمارے لیے بھی یہ جائز ہے کہ ہم اُن نصوص میں تاویل کریں جو معاد ابدان کے بارے میں یعنی حشر و نشر کے بارے میں وارد ہیں ۔ تحقیق انہوں نے ان کو یہ جواب دیا کہ ہم نے تو یہ بات پیغمبر وں کے دین سے بدیہی طور پر اور ضرورتاً جان لی ہیں ۔ تو اہل اثبات نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ یہی حال تو اللہ تعالیٰ کی صفات کے علم کا بھی ہے؛ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرورتاً اور بدیہی طور پر معلوم ہیں اور کتاب و سنت میں اس کا ذکر ملائکہ اور معاد کے ذکر سے بڑھ کر ہے باوجودیکہ مشرکین عرب بھی اس میں نزاع نہیں کرتے تھے جس طرح کہ ان کا نزاع معاد اور حشر و نشر میں تھا اس کے ساتھ ساتھ تورات اس قسم کے نصوص سے بھرا پڑا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود پر ایسی نکیر کسی اور بات میں نہیں فرمائی جس طرح کی نکیر اس معاملے میں اُن پر فرمائی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو نقائص کے ساتھ