کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 50
یا پھر وہ فلسفی ہیں جو کہ حقیقت ِ اسلام اور مرسلین کی اتباع سے کوسوں دور ہیں ۔ جن لوگوں کے نزدیک اسلام کی اتباع واجب نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی اتباع کو حرام سمجھتے ہیں ۔ بلکہ ان کے نزدیک تمام ملتیں اور مذاہب ایک سیاست ہیں جس میں کسی کی بھی اتباع کرنا جائز ہے ۔ اور نبوت بھی ایک قسم کی عادلانہ سیاست ہے جو دنیا میں لوگوں کی مصلحت کے لیے ہے۔ ان لوگوں کی تعداد اس وقت بڑھ جاتی ہے ‘ اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے جب جہالت اور اہل جاہلیت کی تعداد میں اضافہ ہوجائے۔ اور اس وقت کوئی ایسا عالم باقی نہ ہو جو علوم نبوت و سنت کا شناسا ہو ‘ اور اس نور نبوت سے کفر اور گمراہی کے اندھیروں کو ختم کرسکے۔ اور اس میں موجود کفر ‘ شرک اور گمراہی کو طشت از بام کرسکے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو مطلق طور پر نبوت کی تکذیب نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے بعض احوال پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے اس ایمان اور کفر میں مختلف درجات ہیں ۔ اسی وجہ سے نبوت کی تعظیم کا معاملہ بہت سے جاہل لوگوں پر ملتبس [خلط ملط] ہو جاتا ہے ۔ رافضی اور جہمی[1] ان تمام گمراہیوں کے اسلام میں داخل ہونے کے لیے ایک مین گیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان ہی کے راستہ سے وہ تمام گمراہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی کتاب کی آیات کا انکار کیا۔ جیسا کہ گمراہی کے سر غنوں باطنی قرامطی ملحد اور دوسرے منافقین کے ہاں طے شدہ ہے ۔
جو آدمی یہ کتاب میرے پاس لیکر آیا اس کا کہنا تھا کہ جو بادشاہ اور دوسرے لوگ رافضی مذہب کی طرف مائل ہوئے ہیں ‘ اس کا اہم ترین سبب یہ کتاب ہے۔ ابن المطہر نے یہ کتاب ایک مشہور بادشاہ کیلئے تحریر کی جس کا نام اس نے خدا بندہ ذکر کیا ہے۔[2]
[1] صبائی ہیں ؛ اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ: فاریابی جب شہر حران میں آیا تو یہ شہر صبائی مشرکین کا مرکز تھا۔ یہ چوتھی صدی ہجری کا واقعہ ہے۔ اس نے صبائیوں سے علم سیکھا؛ اور فلسفہ کی تعلیم پائی۔ ثابت بن قرہ الحرانی نے بھی ایسے ہی کیا تھا ؛ جو کہ فاریابی سے پہلے گزر چکا ہے۔ تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ مشرکین صبائی؛ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورت حج کی آیت نمبر سترہ میں کیا ہے؛ اور موحدین صبائی جن کا ذکر سورت بقرہ کی آیت نمبر باسٹھ میں کیا ہے؛ کے مابین فرق کرتے ہیں ۔اس کی تفصیل اور مزید معلومات کے لیے دیکھیں : الرد علی المنطقیین ص ۲۹۰؛ ۴۵۴۔ منہاج السنہ ط:بولاق ۱؍۱۹۷؛ مجموعہ الرسائل و المسائل ۴؍۳۷۔ یہاں پر ابن تیمیہ نے انہیں صابیہ معطلہ کا نام دیا ہے۔
.... ۱۔ جہمیہ : وہ فرقہ ہیں جو جہم بن صفوان ابو محرز مولیٰ بنی راست کی طرف منسوب ہیں ۔ اس کا تعلق خراسان سے تھا۔ اور اس نے جعد بن درہم سے تعلیم پائی تھی۔ اور مقاتل بن سلیمان مرجئی کے ساتھ اس کے گہرے روابط تھے۔ اور خراسان کے ایک وڈیرے حارث بن سریج کا منشی تھا۔ اس کے ساتھ مل کر اس نے بنو امیہ کے خلاف خروج کیا۔ پھر شہر مرو کے مقام پر قتل ہوا۔ اور کبھی کبھار جہمیہ کا عمومی اطلاق ہوتا ہے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ اور کبھی اس سے مراد بطور خاص جہم بن صفوان کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ دیکھو: مقالات از اشعری ۱؍۱۹۷۔ الفرق بین الفرق ۱۲۸۔ التبصیر فے الدین ۶۳۔ ۶۴۔
۲۔ قرامطہ : باطنیہ شیعہ کا وہ فرقہ ہیں جو حمدان بن اشعث کی طرف منسوب ہیں ۔ جو کہ اپنے لیے قرمط لقب رکھتا تھا۔ اس نے حسین احوازی سے تعلیم حاصل کی جو کہ عبیداللہ بن میمون قداح کا سفیر اور نمائندہ اور داعی تھا۔
[2] خدا بندہ فارسی لفظ ہے عربی میں اس کے معنی ہیں ، عبداﷲ (اﷲ کا بندہ)۔خدا بندہ ایلخانی بادشاہوں میں سے آٹھواں (