کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 499
کہ جب ایک ایسے موجود کا وجود ثابت ہو جائے جس کی رؤیت اور اس کا احساس ومشاہدہ ممکن نہ ہو اور تو نے تو ایسے کسی موجود کو ثابت نہیں کیا مگر صرف اپنے اس دعویٰ سے کہ یہ حکم باطل ہے اور تو نے اس بات کو ثابت نہیں کیا کہ یہ حکم باطل ہے پس تیرے اس قول کی حقیقت ایک دعویٰ مجردہ ہے جس کے اوپر کوئی دلیل قائم نہیں پس جب اس فیصلے کے ابطال کے ذریعے اس کے رؤیت کی امتناع ثابت ہو گئی تو یہ ایک دورِ ممتنع ہوا اور تو نے تو اس امر کو خود اس کے اثبات کے لیے ایک مقدمہ بنا دیا بے شک تمہیں یہ کہا جائے گا کہ تو نے ایسے وجود کا امکان کو ثابت نہیں کیا جو غیر محسوس ہو بشرطیکہ کہ تو اس فیصلے کے بطلان کو ثابت نہ کر سکے اور تو اس کے بطلان کو ثابت نہیں کر سکتا بشرطیکہ تو ایک ایسے موجود کو ثابت نہ کر سکے جو قائم بنفسہ ہو اور اس کے ساتھ اس کی رؤیت اور اس کا احساس ومشاہد ہ بھی ناممکن ہو ۔
اگر تو کہے کہ وہم تو ایسے مشاہدات کو ناممکن ٹھہراتا ہے جو اس کے وجود کو مستلزم ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حقیقتِ حال اس طرح نہیں اس لیے کہ وہم نے کسی ایسے مقدمہ کو تسلیم نہیں کیا جو اس کو مستلزم ہو بلکہ وہ تمام امور جن پر اس کا ثبوت مبنی ہے اور ایک ایسے شے کے وجود کا امکان مبنی ہے جس کی رؤیت ممکن نہ ہو اور اس کا احساس ممکن نہ ہو تو وہ ایسے مقدمات ہیں کہ خود ان کے بارے میں عقلاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا نہیں جو متفق علیہ ہو چہ جائے کہ وہ ایک امربدیہی اور حسی ہو جس کو وہم تسلیم کرتا ہو ۔
پھر تمہیں الزاماً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تو نے اس بات کو جائز قرار دیا کہ فطرت کے اندر دو بدیہی حاکم اور فیصلہ کرنے والے ہیں :ایک وہ ہے جس کا حکم باطل ہے اور دوسرا وہ کہ جس کا حکم حق ہے تو پھر تو ایسی صورت میں فطرت کے فیصلے پر اعتماد ہی نہ رہا یہاں تک کہ یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ یہ فیصلہ حاکمِ حق کا فیصلہ اور یہ بات تو نہیں معلوم ہو سکتی یہاں تک یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حکمِ باطل میں سے نہیں ہے اور اس کا باطل ہونا معلوم نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ ان مقدمات کو جان لیا جائے جو بدیہی اور فطری ہیں اور اُن کے ذریعے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ یہ حکم باطل ہے اور یہ حق ہے پس اس سے یہ امر لازم آیا کہ فطرت کے کسی بھی فیصلے کی حقیقت کو نہ جانا جا سکے یعنی کہ یہ حق ہے یا باطل ،اس لیے کہ حق کو تو نہیں پہچانا جا سکتا جب تک کہ باطل کو نہ پہچانا جائے یعنی حق کی معرفت باطل کی معرفت پر موقوف ہے اور باطل کی معرفت نہیں ہو سکتی جب تک کہ حق کی معرفت حاصل نہ ہو پس حق کی معرفت باطل کی معرفت پر موقوف ہے پس کسی بھی حالت میں حق معلوم نہیں ہو سکے گا اور یہ بھی کہ ان احکامِ فطریہ بدیہیہ میں جو قیاس قادح ہے تو وہ نظری قیاس ہے اور جو امور نظری ہوتی ہیں وہ چند بدیہیات سے مرکب ہوتے ہیں پس اگر نظریات کے ذریعے امور بدیہیہ میں قدح اور اعتراض کیا جائے تو پھر تو بدیہیات اور نظریات سب کا فساد لازم آئے گا اس لیے کہ اصل کا فساد تو اس کو فرع کے فساد پر مستلزم ہے پس واضح طور پر معلوم ہوا کہ جس نے قضایا بدیہیہ اولیہ فطریہ کے اندر قضاء یا نظریہ کے ذریعے قد ح کو جائز قرار