کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 498
ہے اور اس طرح وہم کا یہ فیصلہ کہ ’’ہر وہ شے جو دیکھنے میں آتا ہے تو اس بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ دیکھنے والے کی طرف سے کسی خاص جہت میں ہو ‘‘یہ بھی تو وہم کا فیصلہ ہے اور اس طرح وہ باقی امور جن کے امتناع کا یہ رب پر دعویٰ کرتے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کے مبائن ہونے کا امتناع اس طرح اس کا کسی خاص مکان میں ہونے کا امتناع پس اگر ان امور میں فطرت کی طرف سے امتناع کا فیصلہ قبول ہے تو پھر اس کی نظیر میں بھی قبول کیا جانا چاہیے ورنہ تو دو متماثلین میں سے ایک میں قبول کرنا اور دوسرے میں رد کرنا تو تحکم محض (ہٹ دھرمی)ہے ۔ انہوں نے اپنے کلام کی بنیاد ایسے اصول پر رکھی ہے جو باہم متناقض ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک وہم نفس کے اندر ایک ایسی قوت سے عبارت ہے جس کے ذریعے محسوسات میں ایسے امور کا ادراک کیا جا سکتا ہے جو خود محسوس نہیں اور وہم تو صرف معانی جزئی کا ادراک کرتا ہے نہ کہ کلیۂ کا جیسے کہ حس اور تخیل ۔ رہے احکامِ کلیہ تو وہ تو امورِ عقلیہ ہیں پس فطرت کا یہ فیصلہ کہ ’’ہر دو موجود چیزیں یا تو وہ کسی خاص مکان میں ہونگی یا دونوں متبائین ہونگی‘‘ اور یہ فیصلہ کہ ’’جو شے عالم کے اندر داخل نہ ہو اور نہ اس سے خارج ہو وہ صرف اور صرف معدوم ہی ہوتا ہے ‘‘اور یہ کہ ’’ایسی شے کا وجود ممتنع ہے ‘‘اور اس کے امثال اور دیگر احکامِ عقلیہ تو یہ سب احکامِ کلیہ عقلیہ ہیں یہ کسی جسمِ معین میں جزئی اور شخصی احکام نہیں ہیں تا کہ یہ کہا جائے کہ یہ وہم کے حکم میں سے ہے اور یہ بھی کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ غیر محسوس اشیاء میں وہم کا فیصلہ باطل ہے اس لیے کہ وہ تو محسوسات میں ایسے معانی کا ادارک کرتا ہے جو محسوس نہیں ہوتے یعنی ان کا احساس ومشاہدہ ممکن نہیں ہوتا ۔ اور یہ بات بداہۃ ً معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا ممکن ہونا اور نہ ہونا ایک مشہور مسئلہ ہے پس امت کے اسلاف اور ان کے آئمہ اور جمہور اہل نظر اور عامۃ المسلمین کی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممکن ہے ،ایسے ہی ملائکہ اور جنات کا دیکھنا بھی ممکن ہے اور اس طرح باقی وہ اجسام دیکھنا بھی ممکن ہے جو قائم بنفسہ ہیں پس اگر کوئی مدعی اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس کی رؤیت ممکن نہیں اور نہ ان ملائکہ کی رؤیت ممکن ہے جن کو یہ لوگ نفوسِ مجردہ یا عقول کہتے ہیں پس یہ ایک ایسے موجود کا دعویٰ کرتے ہیں جو قائم بنفسہ ہے لیکن اس کا احساس اور مشاہدہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہے ۔ اگر اس کے خلاف ان قضایا فطریہ سے استدلال کیا جائے جن کا فطرت فیصلہ کرتا ہے جیسے کہ باقی فطری قضایا کا فیصلہ فطرت ہی کرتا ہے تو کسی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ یہ کہے کہ یہ توغیر محسوس میں وہم کا فیصلہ ہے پس اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ وہم تو محسوسات کے اندر موجود امور کا ادارک کرتا ہے پس بے شک اس کو جواب میں کہا جائے گا کہ اس شے کی رؤیت کا ناممکن ہونا اور اس کے احساس کاناممکن ہونا تو تب ثابت ہوگا جب یہ ثابت ہو جائے کہ یہ حکم اور فیصلہ باطل ہے اور اس حکم اور فیصلے کا باطل ہونا تب ہی ثابت ہوگا