کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 495
رکھتا ہے وجودِ خارجی یا حسی نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہری فلاسفہ نے اپنے اس قول پر کہ ’’ایک فرد سے ایک ہی صادر ہو سکتا ہے ‘‘ بنیاد رکھی تو سب سے پہلے وہ بات جس سے ان کے قول کو فساد کو بیان کیاگیا وہ یہ ہے کہ وہ واحد جس کے بارے میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں تو ایسے واحد کے لیے خارج میں کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ اس کا وجود ممتنع ہے اور اس کو تو صرف ذہنوں میں فرض کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ باقی ممتنعات کو فرض کیا جا سکتا ہے ۔ ایسے ہی جہمیہ اور معتزلہ جو صفات کی نفی کرنے والے ہیں جب انہوں نے ایک ایسے واحد ذات کو ثابت کیا جوکسی بھی صفت کے ساتھ متصف نہ ہو تو یہ آئمہ علم کے نزدیک جو ان کے قول کی حقیقت کو جانتے ہیں تو ان کے نزدیک اُن کی توحید تعطیل (سے عبارت )ہے جو مستلزم ہے خالق کی ذات کی نفی کو اگرچہ انہوں نے اس کو ثابت کر دیا ہے لیکن وہ اپنے اقوال میں متناقض ہیں انہوں نے ایسے امور کو جمع کر دیا ہے جو اس کی نفی اور اثبات دونوں کو مستلزم ہیں ۔ اس لیے آئمہ اسلام نے اس کو تعطیل کے ساتھ موصوف کیا ہے اور یہ کہ یہ لوگ تدلیس (حق وباطل میں خلط ملط کرنے والے )کرنے والے ہیں اور یہ کسی بھی شے کو ثابت نہیں کرتے اور نہ کسی شے کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے امثال جس طرح کہ آئمہ اہل اسلام میں سے بہت سوں کے کلا م میں یہ بات موجود ہے جیسے عبد العزیز بن الماجشون [1]،عبد اللہ بن مبارک ،حماد بن زید ،محمد بن الحسن ،احمد بن حنبل رحمہم اللہ اور اسکے علاوہ بہت سے دیگرعلمائے کرام ۔ اور ہر دعویٰ کے لیے کسی دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ رافضی کے اس قول پر تعلیق کہ’’ ولا فی مکان ‘‘: [اعتراض]:.... شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ لَا فِی مکان‘‘ (اﷲ تعالیٰ مکان میں محدود نہیں )۔ [جواب]:.... لفظ مکان دو معانی کے لیے مستعمل ہے: ۱۔ مکان وہ چیز ہے جو کسی پر حاوی و محیط ہو اور وہ چیز اس کی محتاج ہو۔ ۲۔ لفظ مکان کا اطلاق بعض اوقات مافوق العالم پر بھی کیا جاتا ہے، خواہ وہ موجود بھی نہ ہو۔ لفظ مکان سے اگر پہلا مفہوم مراد لیا جائے؛ کہ غیرنے اس کا گھیراؤ کر رکھاہے؛ اور وہ غیر کا محتاج ہے؛ تو ذات باری تعالیٰ اس سے منزہ ہے۔اسے نہ ہی کسی کی کوئی ضرورت ہے؛ اور نہ ہی کوئی اس کا احاطہ کرسکتا ہے۔ البتہ دوسرے معنی کے اعتبار سے اﷲپر لفظ مکان کا اطلاق کر سکتے ہیں اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ تمام عالم سے
[1] عبد العزیز بن عبداللہ ؛ بن ابی سلمہ ؛ ابو عبداللہ الماجشون؛ بہت بڑي فقیہ اور ائمہ محدثین میں سے ایک تھے۔ ۱۶۴ ہجری میں بغداد میں انتقال ہوا۔ تہذیب التہذیب ۶؍ ۳۴۳۔ تذکرۃ الحفاظ ۱؍۲۰۷۔ شذرات الذہب ۱؍ ۲۵۹۔