کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 493
بعض کادوسرے بعض کی طرف ان کا استحالہ [ادغام ]نہیں ہوتا[ یعنی ایک دوسرے کی شکل اختیار نہیں کرتے] بلکہ وہ جواہر جو زمانہ اول میں تھے؛ وہ بعینہ دوسرے زمانہ میں باقی رہتے ہیں ۔تبدیلی تو صرف ان کے اعراض میں آتی ہے۔اور وہ بدل جاتے ہیں ۔
ان کا یہ عقیدہ ائمہ دین اور دیگر اہل خردو دانش کی متفق علیہ [اجماعی] رائے کے خلاف ہے؛یہ حضرات کہتے ہیں : بعض اجسام کا دوسرے بعض کی طرف استحالہ اور انتقال (یعنی ان میں تبدیل ہونا )یہ ممکن ہے ۔جیسے انسان اور اس کے علاوہ دیگر حیوانات کا موت کے ذریعے مٹی میں تبدیل ہونا ۔اس طرح خون ، میت ،خنزیر اور اس کے علاوہ دوسرے اجسامِ نجسہ کا نمک ؛ خاک یا راکھ بن جانا۔ اس طرح گندگی اور مینگنی کا مٹی بن جانا۔ اور انگور کے رس کا شراب بن جانا اور شراب کا سرکہ بن جانا اور جو اشیاء انسان کھانا پیتا ہے اس کا بول وبرازاورخون میں تبدیل ہونا اورا س طرح کی دیگر مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔
اوردرحقیقت علمائے مسلمین نے نجاست کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کیا وہ تحلیل ہونیسے صاف ہو جاتی ہے یا نہیں ؟اور ان میں سے کسی نے بھی تحلیل کا انکار نہیں کیا۔
جوہرِ فرد کے مثبتین نے اس سے مزید ایسے اقوال اور مسائل نکالے ہیں جن کا فساد بدیہی عقل سے معلوم ہے؛ اور ان کو تفصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ مثال کے طور پر چکی اور اسی طرح آسمان اور دیگر وہ اجسام جو گول ہیں اور متحرک ہیں ان کی گردش[1]اور ان میں سے بعض کہتے ہیں : فاعلِ مختارجب بھی متحرک ہوتا ہے؛
اس سے فعل کا صدور ہوتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے کہتے ہیں کہ:’’ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے تمام جواہر باقی رہتے ہیں صرف ان میں تفرق اور جدائی آجاتی ہے۔ پھر اعادہ کے وقت اللہ تعالیٰ ان کو جمع کر دیتے ہیں اسی وجہ سے ان کے ماہرین ائمہ میں بہت سوں نے اس امر میں بالآخر توقف کی طرف رجوع کیا جیسے ابو الحسین بصری اور ابو المعالی جوینی ،ابو عبد اللہ رازی ،ابن عقیل ،غزالی اور ان کے امثال؛ جو کہ اہل نظر میں سے ہیں ۔ جن کے سامنے ان فلاسفہ کے اقوال کا فساد واضح ہوا تو وہ ان کے اقوال کی مذمت کرتے تھے۔ اور پھر وہ یہ فرماتے تھے کہ ان کے اقوال کا خلاصہ صرف شک ہی ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے بہت سی مصنفات میں ان کی بہت سے اُن امور اورخودساختہ اور باطل عقائد پرموافقت کی ہے جن کے وہ قائل تھے۔[2]
ان لوگوں کے قول کے فساد پر تفصیلی کلام ہو چکا ہے جو جواہرِ مفردہ کے ترکیب کے قائل ہیں یا جواہرِ معقولہ
[1] متکلمین کی اس سوچ کی شرح رازی نے اپنی کتاب ’’الاربعین فی اصول الدین ‘ ص ۲۶۲ ‘پر کی ہے۔
[2] ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے؛ جس کا نام ہے:’’ ابطال قول الفلاسفہ بإثبات الجواہر العقلیۃ ‘‘ابن عبد الہادی نے اپنی کتاب ’’العقود الدریۃ من مناقب شیخ الاسلام ابن تیمیہ ‘‘ ص ۳۶ پر اس کا ذکرکیا ہے۔ اور ابن قیم نے مؤلفات ابن تیمیہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ کتاب فالحال مفقود ہے۔