کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 491
بعض نے ہر دو امور میں ان کے ساتھ اختلاف کیاہے؛اور کہا کہ نہ تو یہ جسم ہے اورر نہ (دوسرا )اور بعض نے اس کا جسم ہونا تسلیم کیا ہے؛مگرنقطہئاختلاف یہ ہے کہ قدیم جسم نہیں ہو سکتا۔
حقیقت ِحال تو یہ ہے کہ لفظ ’’جسم ‘‘میں لفظی اور معنوی اختلافات ہیں ۔اور لفظی اختلافات عقلی معانی میں معتبر نہیں ۔رہے معنوی اختلافات جیسے کہ لوگوں کا اُن امور میں اختلاف ہے جن کی طرف اشارۂ حسیہ کیا جاتا ہے ؛ کیا ایسے امور کے بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ جواہرِ فردہ سے مرکب ہوں یا مادہ اورر صور ت سے یا ان میں سے کوئی بھی واجب نہیں ؟پس معتزلہ اور اشعریہ اور ان کے اکثر موافقین اہل نظر نے تو کہا ہے کہ ایسے مشار الیہ جسم کے لیے جواہر فردہ سے مرکب ہو۔ پھر ان کے جمہور تو اس بات کے قائل ہیں کہ وہ متناہی جواہر سے مرکب ہے اور بعضو ں نے تو کہا کہ غیر متناہی جواہر سے مرکب ہے۔[1]
بہت سے اہل نظر فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ جسم کا مادہ اور صورت سے مرکب ہونا واجب ہے۔ پھربعض فلاسفہ نے تمام اجسا م میں سے اس کو مطرد اور عام کیا ہے؛ جیسے کہ ابن سینا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ: یہ صرف اجسام عنصریہ میں سے ہے نہ کہ فلکیہ میں اور اس کا عقیدہ ہے کہ یہ ارسطو اور قدمہ کا قول ہے۔
بہت سے مصنفین صرف یہی دو قول ذکر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے صرف ان کتابوں کا مطالعہ کیاہو ؛ تو اسے صرف انہی دونوں قولوں کوپتہ ہوتا ہے ۔
قولِ ثالث : جمہورِ علماء اور اکثر اہل نظر کہتے ہیں کہ وہ مرکب نہیں ۔ نہ اِس سے اور نہ اُس سے۔ اوریہ ابن کلاب ،امام اشعری ،بہت سے کرامیہ ،ہشامیہ ،نجاریہ اور ضراریہ کا قول ہے۔[2]
پھر ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ جسم تقسیم کے ساتھ جزء لا یتجزأ کی طرف منتہی ہو جاتا ہے جیسے کہ شہرستانی اور ان کے علاوہ دیگر کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : وہ غیر متناہی حد تک انقسام کو قبول کرتا ہیحتی کہ وہ ایک انتہائی چھوٹا جسم ہو جائے جس کے بعض کا بعض سے تمیز مستحیل ہو ۔یعنی جدا ہونا محال ہو۔ یہ عقیدہ بعض کرامیہ کا ہے۔
[1] أصول الدین لابن طاہر ۳۶۵؛ الکلیات لأبي البقاء ؛مادۃ جوہر؛ الفصل لابن حزم ۵؍۳۲۳۔
[2] نجاریہ : ابو عبداللہ حسین بن محمد بن عبداللہ النجار کے پیروکاروں کو کہا جاتاہے۔ اس کی تاریخ پیدائش اور وفات کا علم نہیں ہوسکا۔ البتہ ابن ندیم نے الفہرست میں ص ۷۹ پر لکھا ہے کہ: یہ اس علت کے سبب سے مرا ہے جو نظام کے ساتھ مناظرہ کے دوران اسے لاحق ہوئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نظام کا معاصر تھا؛ جو کہ ۲۳۱ ہجری میں گزرا ہے۔ شہرستانی نے اسے مجبرہ میں شمار کیا ہے ؛ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ خلق اعمال کے عقیدہ میں مثبتین کے ساتھ متفق ہے۔بلکہ کسب اعما ل کے بارے میں بھی اس کا وہی عقیدہ ہے جو بعد میں ابو الحسن اشعری کا تھا۔ دیکھو: مقالات أز اشعری ۱؍۱۹۹۔ أصول الدین لابن طاہر ص ۳۳۴۔ التبصیر فی الدین ۶۲۔
ضراریہ : ضرار بن عمرو کے اتباع کو کہا جاتا ہے۔ لسان المیزان ۳؍ ۲۰۳۔ الفہرست لابن ندیم ۸۰۔ یہ لوگ بہت سارے عقائد میں نجاریہ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکرین ہیں ۔ اور خلق افعال العباد کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ الملل و النحل ۱؍ ۸۲۔ الفرق بین الفرق ۱۳۰۔ أصول الدین لابن طاہر ۳۹۔ مقالات الاسلامیین ۱؍ ۳۱۳۔