کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 490
صفات وابستہ ہوں ۔ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ ان صفات سے موصوف ہے۔ مومن بروز قیامت اسے کھلم کھلا دیکھیں گے۔علاوہ ازیں یہ صفات اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔چنانچہ دعا کرتے وقت اس کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے، آنکھ اور دل اورچہرہ سے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
اگر شیعہ یہ کہے کہ اﷲ تعالیٰ کے جسم نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ان امور سے بھی بہرہ ور نہیں ۔
تو ہم کہیں گے کہ یہ امور و اوصاف نقل صحیح اور عقل صریح سے ثابت ہیں ، اور تم ان کی نفی پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے ۔ جسم کا لفظ نفی و اثبات دونوں اعتبار سے بدعت ہے۔ اس لیے کہ نصوص شرعیہ اور اقوال سلف میں لفظ جسم کے اطلاق کی نفی کی گئی ہے[1] نہ کہ اثبات کی۔ اسی طرح ’’ جوہر ‘‘ اور ’’متحیّز ‘‘ کے الفاظ کا بھی نفی یا اثبات کسی بھی اعتبار سے نصوص میں کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔اہل کلام کے ہاں یہ تنازع بھی ایک بدعت ہے۔
اگر وہ یہ کہتا ہے کہ ہر وہ شے جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور اس کو دیکھا جاتا ہے اور اس کی طرف ہاتھ اٹھایا جاتاہے؛وہ تو صرف جواہرِ فردہ سے مرکب جسم ہو تا ہے ؛ یا مادہ یا صورت سے مرکب۔
تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات محلِ نزاع ہے۔ اکثر عقلاء اس کی نفی کرتے ہیں اور تم نے تو کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور یہی تومنکرین صفات کیمنتہائے نظر ہے؛ اس لیے کہ منکرین صفات کے ہاں اکثر عبارات اسی کی طرف لوٹتی ہیں (یعنی ان کا حاصل یہی ہے )۔اورمثبتین صفات کیطرق اور ان کی تعبیرات ان پر رد کرنے میں مختلف ہیں ۔ان میں سے بعض نے ان کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ اس ذات کے ساتھ جو افعال اور غیر افعال میں سے امور اختیاریہ قائم ہوتے ہیں وہ صرف جسم ہی ہے اور انہوں نے ان امور میں اختلاف کیاہے؛ جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ صفات جن میں سے کوئی بھی شے مشیت اور قدرت سے متعلق نہیں ۔
[1] جو بات غیبی امور سے تعلق رکھتی ہو اس کا ذکر نفیاً یا اثباتاً کسی طرح بھی درست نہیں ، اس کا ذکر صرف انہی الفاظ میں مناسب ہے جو منصوص اور شارع سے منقول ہوں ، اس میں سلف صالحین کی پیروی کا التزام از بس ناگزیر ہے۔ نائب السلطنت افرم کی مجلس میں بمقام دمشق ۷۰۵ھ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے معاصر علماء کے مابین جو مناظرہ ہوا تھا اس میں شیخ کے حریف علماء نے جب تشبیہ و تجسیم کی نفی کا ذکر چھیڑا تو شیخ الاسلام نے اپنے رسالہ’’العقیدۃ الواسطیہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
میرا قول ’’ مِنْ غَیْرِ تَکْیِیْفٍ وَلَا تَمْثِیْلٍ ‘‘ہر باطل کی تردید کے لیے کافی ہے، میں نے تشبیہ و تمثیل کی بجائے تکییف و تمثیل کے الفاظ اس لیے انتخاب کیے کہ ’’ تکییف ‘‘ کی نفی سلف سے منقول ہے، چنانچہ امام مالک اور ابن عیینہ کا یہ مقولہ علماء کے یہاں زبان زد خاص و عام ہے: ’’اَلْاِسْتَوَائُ مَعْلُوْمٌ وَالْکَیْفُ مَجْہُوْلٌ وَالْاِیْمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ وَالسُّوَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ ‘‘(اﷲ تعالیٰ کا مستوی علی العرش ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں اس پر ایمان لانا واجب اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے) ۔
خلاصہ کلام.... شیخ الاسلام اپنی تصانیف میں نہ صرف لفظ جسم کا اطلاق کرنے سے احتراز کرتے ہیں بلکہ تجسیم کا لفظ تک تحریر نہیں کرتے۔ ذات باری کی تنزیہ کرتے ہوئے وہ ’’ من غیر تکییف ولا تمثیل ‘‘کے الفاظ ذکر کرتے ہیں جس سے ان کا مقصد شرعی اصطلاحات کا تتبع اور طریق سلف کی پیروی کرنا ہے، جو الفاظ غیبی امور سے متعلق ہوں ورود نص کے بغیر ان کا استعمال نفیاً و اثباتاً کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔