کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 49
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ؛ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ۔پھر اگر وہ روگردانی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔‘‘
[کتاب ’’منہاج السنہ ‘‘ کی تالیف کا سبب]
’’میرے سامنے ایک معاصر شیعہ ’’ابن المطہر‘‘[1]کی کتاب پیش کی گئی۔یہ کتاب اس نے شیعہ امامیہ کے مذہب کی ترویج واشاعت کے لیے تحریر کی تھی۔جس میں اس نے ان لوگوں کو رافضی مذہب کی دعوت پیش کی ہے جن حکمرانوں اور اہل جاہلیت وغیرہ تک اس کی پہنچ ہوسکی ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں علم اور دین کی بہت ہی کم معرفت ہوتی ہے ۔ اور انہیں مسلمانوں کے اصل دین کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اور اس پر مستزاد کہ وہ لوگ بھی اس کے مدد گار بنے جن کی عادت رافضیوں کی مدد کرنا ہے ۔ میری مراد وہ باطنیہ[2]اور ملحد ہیں جو اسلام کا اظہار تو کرتے ہیں مگر اپنے دلوں صبائیت ‘مجوسیت اور الحاد کو چھپائے ہوئے ہیں ۔[3]
[1] ابن المطہر کا پورا نام حسن بن یوسف بن علی ابن المطہر المتوفی (۶۴۸۔۷۲۶) ہے، یہ نصیر الدین طوسی المتوفی (۵۹۷۔ ۶۷۲) کا شاگرد خاص اور شیعہ کے کبار علماء میں سے ایک ہے، اس کی تربیت ہی صحابہ و تابعین کرام کے بغض و عناد پر ہوئی تھی، جو صحابہ نے کار ہائے نمایاں انجام دیے اور دنیائے انسانیت جن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ابن المطہر اُن کو غضب آلود نگاہ سے دیکھتا ہے، ابن المطہر نے اپنی کتاب کے جو اوراق سیاہ کیے ہیں ، ان میں جگہ جگہ اس کی عداوتِ صحابہ کے مظاہر نظر آتے ہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کتاب کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا ہے، اور اسے اولین و آخرین کے لیے سامان عبرت بنا دیا ہے۔
[2] باطینہ شیعہ کا وہ گروہ ہے جو کتاب اللہ کی ہر ظاہری آیت کا ایک باطنی معنی قرار دیتے ہیں ۔ اور قرآن مجید کی ہر آیت کی غلط اور باطل تاویل کرتے ہیں ۔ علامہ شہرستانی نے (الملل والنحل ۱؍۱۷۲) پر تحریر کیا ہے کہ: بیشک باطنیہ ایک قدیم فرقہ ہے۔ ان کے کلام میں کچھ فلاسفہ کے کلام کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ اور ہمارے دور میں باطنیہ اسماعیلیہ اور غالی شیعہ ہیں ۔ اور انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ : عراق میں انہیں باطنیہ ؛ قرامطہ اور مزدکیہ کہا جاتا ہے۔ اور خراسان میں تعلیمیہ اور ملحدہ کہا جاتا ہے۔ اور محمد بن حسن دیلمی نے اپنی کتاب ’’ قواعد عقائد آل محمد (مطبوع ۱۹۵۰ قاہرہ مصر) میں صفحہ ۳۴ پر کہا ہے: ان کے بذیل القاب ہیں : سبیعیہ خرمیہ؛ بابکیہ ؛ محمَّرہ ؛ مبارکیہ ؛ الاباحیہ ؛ زنادقہ ؛ والخر المدینیہ۔ اور ابن طاہر البغدادی نے الفرق بین الفرق ص ۱۹۶ پر اصحاب المقالات کے بارے میں کہا ہے : ’’انکا یہ کہنا کہ جن لوگوں نے باطنیہ کی بنیاد رکھی ہے؛ وہ ایک پوری جماعت تھے؛ ان میں سے ہی میمون بن دیصان المعروف القداح اور محمد بن الحسین الملقب بدندان بھی ہے۔[الملل والنحل ۱؍۱۷۰۔ ۱۷۸ ؛ الفرق بین الفرق ص ۱۶۹۔ ۱۸۸۔ الصراع بین الموالی و العرب تالیف دکتور محمدبدیع شریف ص ۵۷۔ ۶۵۔ القاہرہ ؛ ۱۹۵۴]
[3] صبائیت : امام رازی نے اپنی کتاب ’’اعتقادات فرق المسلمین والمشرکین میں ص ۹‘‘ پر کہا ہے: ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کا خالق اور نظام کو چلانے والا سات ستارے ہیں ۔ اس لیے یہ لوگ ستاروں کی پوجا کرتے ہیں ۔
شہرستانی نے الملل والنحل میں ۱؍۲۱۰ ۔۲۱۱۔ پر کہا ہے: کہا جاتا ہے کہ جو فرقے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں موجود تھے ان کی دو اقسام ہیں : صبائی اور حنفاء ۔صبائی کا ایک عقیدہ ہے کہ ایک متوسط روحانی وجود کی بھی ضرورت ہے۔ یہ متوسط روحانی وجود ان میں سے بعض کے نزدیک ستارے ہیں اور بعض کے نزدیک بت ہیں ۔ ابن تیمیہ اکثر و بیشتر جب یہ کہتے ہیں کہ : فلاسفہ مشرک (