کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 489
رافضی کے اس قول پرتبصرہ کہ وہ واحد ہے نہ وہ جسم ہے نہ جوہر:
رہا اس کا یہ کہنا کہ اس لیے کہ اللہ کی ذات ایک ہے وہ جسم نہیں ،اگر واحد سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ہے جو آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مراد ہے مثلاً:
﴿ وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ....﴾ (البقرۃ ۱۶۳)
’’اور تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے،....۔‘‘
نیز ارشادباری تعالیٰ ہے :
﴿ وَّ ھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَّار﴾ (رعد: ۱۶)
’’ اور وہی ایک ہے، نہایت زبردست ہے۔‘‘
اور اس کے امثال دیگر آیات ۔تو یہ بات تو حق ہے۔
اور اگر ’’واحد ‘‘سے اس کی مراد وہ ہے جومنکرین صفات جہمیہ مراد لیتے ہیں ؛ یعنی وہ صفات سے خالی ایک ذات ہے؛ تو اس واحد کے لیے خارج میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ تو صورت صرف ذہنی ہوسکتی ہے؛ عینی نہیں ۔اس لیے کہ [محسوسات میں ] صفات سے خالی ذات کا وجود ممتنع ہے۔ ایسے حی ،علیم اور قدیر کا وجود ممتنع ہے جس کے لیے صفتِ حیات ،علم اور قدرت ثابت نہ ہوں پس اسماء کو ثابت کرنا بغیر صفات کے عقلیات اور سمعیات (عقلی اور نقلی دلائل )میں سفسطہ(یونانی کلمہ ہے جس کا معنی ہے ’’غلط ‘‘) ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ’’جسم ‘‘ کا استعمال :
[اعتراض]:.... شیعہ مصنف کا قول ہے:اللہ تعالیٰ اکیلے ہیں وہ ’’ لَیْسَ بِجِسْمٍ ‘‘( مجسم نہیں )۔
[جواب]:.... ہم کہتے ہیں کہ: جسم کا لفظ محتاج تشریح ہے، یہ لفظ ان معانی کے لیے مستعمل ہے:
۱۔ وہ مرکب جس کے اجزاء الگ الگ ہوں اور ان کو یکجا کر دیا جائے۔
۲۔ جو تفریق و انفصال کو قبول کرتا ہو۔
۳۔ جو مادہ و صورت سے مرکب ہو۔
۴۔ یا ان مفرد اجزاء سے مرکب ہو جنہیں جواہر مفردہ کہا جاتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ مذکورۃ الصدرجملہ امور و اوصاف سے منزہ ہے کہ وہ متفرق تھا اور پھر جمع ہوگیا ؛ یا یہ کہ وہ تفریق اور تجزی قبول کرتا ہے ؛تجزی کا مطلب ہے کہ کسی چیز کے مختلف اجزاء کو ایک دوسرے سے جدا کردیا جائے۔ اور ایسے ہی مرکب کہنا بھی اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے۔
۵۔ بعض اوقات جسم سے وہ چیز مراد ہوتی ہے جس کی جانب اشارہ کیا جا سکے؛ جسے دیکھا جاسکے یا جس کے ساتھ