کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 488
قدیم سے مراد قائم بنفسہ ہے یا فاعلِ قدیم مراد ہے یا ربِ قدیم اوراس کے امثال تو صفت اس اعتبار سے قدیم نہیں بلکہ وہ تو قدیم کی صفت ہے اور اگر اس سے ایسی ذات مراد لی جائے جس کے لیے کوئی ابتدا (یعنی وہ ازلی ہے )نہیں اور اس پر عدم مطلقاً طاری نہیں ہوتا تو اس کی صفت بھی قدیم ہے ایسے لفظ ’’واجب الوجود ‘‘ سے مراد اگر قائم بنفسہ اور موجود بنفسہ مراد لیا جائے تو پھر صفت واجب نہیں بلکہ وہ تو واجب الوجود ہی کی صفت ہے ۔ اگر وہ مراد لیا جائے جس کے لیے کوئی فاعل نہ ہو یا جس کیلئے کوئی علت فاعلہ نہ ہو تو پھر صفت واجب الوجود ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ وہ ایسی ذات ہے جس کا غیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر اس اعتبار سے وجود میں کوئی بھی واجب الوجود نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ باری تعالیٰ اپنے ماسوا تمام کے لیے خالق ہے؛ پس اس کا اپنے مخلوقات کے ساتھ تعلق ہے۔ اور اس کی ذات اس کی صفات کے ساتھ لازم اور اس کی صفات کااس کی ذات کے ساتھ لزوم ہے۔ اور ان کی تمام صفاتِ لازمہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ واجب الوجود پر ممکنات دلالت کرتی ہیں ۔ اور وہ قدیم جس پر حوادث دلالت کرتے ہیں ؛یہ وہی خالق ہے اور بذات خود موجود ہے۔ اور وہی ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گا؛ اور اس پر عدم ممتنع ہے۔ اس لیے کہ رب تعالیٰ پر واجب بذاتہ کہنا اور اس کے تمام ماسوا کو ممکن کہنا یہ ارسطو اور قدمائے فلاسفہ کا قول نہیں ۔لیکن وہ اللہ تعالیٰ کو ’’مبدأ اور علت‘‘ کانام دیتے تھے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کو حرکت ِ فلکیہ کی جہت سے ثابت کرتے تھے۔ پس وہ کہتے تھے کہ فلک متحرک ہے بوجہ اس کی ذات کے ساتھ تشبہ کے۔ پس ابن سینا اور اس کیہمنواؤں نے ان کے اور معتزلہ کے قول سے ایک مرکب مذہب اختیار کیا ۔پس معتزلہ نے جب کہا کہ ہرموجود قدیم اور حادث میں تقسیم ہوتاہے۔ اور بے شک قدیم کے لیے کوئی صفت ثابت نہیں ؛ تو ان لوگوں نے بھی کہا کہ یہ واجب اور ممکن کی طرف منقسم ہے اور واجب کے لیے کوئی صفت ثابت نہیں اور جب انہوں نے کہا کہ قدیم کا تعدد ممتنع ہے تو انہوں نے کہا کہ واجب کا تعدد ممتنع ہے تو گویا تعبیرات کئی ہیں لیکن مرجع اور محل ایک ہے ۔ رافضی کے اس قول پرتبصرہ کہ اللہ کے ماسوا سب حادث ہیں : اور رہا اس کا یہ کہنا کہ اللہ کی ذات کے ماسوا تمام حادث ہیں یہ بات تو حق ہے اور ’’ماسواہ‘‘ کے میں ہائے ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے اور جب اللہ کے لیے اسم ظاہر ضمیر کے ساتھ ذکر کیا جائے تو اس کے مسمیٰ میں اس کی تمام صفات بھی داخل ہوتی ہیں پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے مسمیٰ سے خارج نہیں پس جس نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا یا میں نے اس کی عبادت کی تو بتحقیق اس نے حی ،قیوم ،علیم ،قدیر اور اس ذات کو پکارا جو کہ علم اور قدرت کیساتھ موصوف ہے اور باقی صفاتِ کمال کے ساتھ بھی موصوف ہے ۔