کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 486
اور قاعد ہے تو یہ قیام و قعود کومستلزم ہے ۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ بیشک وہ فاعل اور خالق ہے۔ تو یہ صفتِ فعل اور خلق کو مستلزم ہے۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ وہ متکلم اور مرید ہے؛ تو یہ کلام اور ارادے کو مستلزم ہے ۔اسی طرح جب کہا جائے کہ وہ حی ،عالم اور قادرہے تو یہ صفتِ حیات علم اور قدرت کو مستلزم ہے ۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ افعال کے قیام کی نفی کی ہے ۔اور یہ کہا کہ اگر وہ صفت خلق کے ساتھ خالق ہے تو پھر اگر وہ ذات قدیم ہے تو مخلوق کا قدم بھی لازم آئے گا؛ اور اگر وہ حادث ہے تو لازم آئے گا کہ اس کے لیے کوئی خلقِ آخر بھی ہو۔تو اس سے تسلسل اور حوادث کا اس کی ذات کے ساتھ قیام لازم آئے گا ۔لوگوں نے اس کے جواب دییہیں ۔اور ایک گروہ نے تو خلق کے صفت ِ قدم کا قول اختیار کیا نہ کہ مخلوق کا۔ اور وہ صفتِ ارادہ کے ساتھ اس کا معارضہ اور مقابلہ کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں :یہ صفتِ ارادہ قدیم ہے باوجودیکہ مراد حادث ہے۔ ایسے ہی خلق کی بابت ان کا عقیدہ(صفت خلق قدیم ہے جبکہ مخلوق حادث ہے )؛ اور یہ بہت سے حنفیہ ،حنابلہ ، صوفیہ اور محدثین اور دیگر حضرات کا جواب ہے ۔ ایک گروہ نے کہا ’’بلکہ صفتِ خلق تو کسی اور خلق کی طرف محتاج نہیں ۔جیسے ان کے نزدیک ساری مخلوق خلق کی محتاج نہیں ۔پس جب ان کے نزدیک حوادث میں سے کوئی شے خلق کی محتاج نہیں ؛ تو وہ خلق جس کے سبب مخلوق عدم سے وجود میں آئے وہ صفت ِخلق کسی دوسرے خلق کی طرف بطریقِ اولیٰ محتاج نہیں ۔ اور یہ بہت سے معتزلہ ،کرامیہ اور محدثین اور صوفیہ کا جواب ہے۔ اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ صفتِ خلق اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ: وہ مخلوق کے ساتھ قائم ہیں ۔بعض اس بات کے قائل ہیں کہ یہ صفت بغیر کسی محل کے قائم ہے جس طرح کہ صفتِ ارادہ میں معتزلہ میں سے بصریین کا قول ہے اور ایک گروہ نے تو اپنے ذمہ تسلسل کا الزام لے لیا اور پھر یہ لوگ دو قسم کے ہیں : بعض ایسے معانی کے وجود کے قائل ہیں جن کے لیے آنِ واحد میں کوئی انتہا نہیں ۔یہ ابن عباد اور اس کے اصحاب کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ دھیرے دھیرے وجو د میں آتے ہیں ۔ یہ بہت سے محدثین اور اہل سنت او رآئمہ فلاسفہ کا قول ہے ۔رہا تسلسل تو بعض لوگوں نے تو اس کا التزام نہیں کیا اور اس نے کہا کہ جس طرح تمہارے ہاں ایسے حوادث ممکن ہیں جو منفصل ہوں اور ان کے لیے کوئی ابتدا نہ ہو(یعنی ازلی ہوں ) ایسے ہی اس کی ذات کیساتھ ایسے حوادث کا قیام بھی جائز ہے جن کے لیے کوئی ابتدا ء نہ ہو اور یہ بہت سے کرامیہ ،مرجئہ اور ہشامیہ کا قول ہے ۔ بعضوں نے کہا ’’بلکہ تسلسل آثار میں جائز ہے نہ کہ مؤثرات میں ۔ اور انہوں نے اس بات کا التزام کیاہے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کوئی غیر متناہی دھیرے دھیرے قائم ہو سکتا ہے ۔اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت سے متکلم ہیں اور اس کے کلمات (صفات )کے لیے کوئی انتہا نہیں اور یہی محدثین اور بہت سے اہل