کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 485
اس کی ذات کے ساتھ صفتِ خلق اور عدل قائم نہیں ؛ تواسی طرح حی ؛علیم اور قدیر بھی ہے۔ جواب: ان سے کہا جائے گا کہ: ان لوگوں کی تمہارے ساتھ موافقت تمہارے قول کی صحت پر دلالت نہیں کرتی ۔ سلف صالحین اور آئمہ اور جمہورِ مثبتین تمہارے مخالف ہیں ۔اور وہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اس کے افعال قائم ہیں ۔پھر یہ اسماء دلالت کرتے ہیں کہ خلق اور رزق کی صفت اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ جس طرح کہ لفظ متکلم اور مرید؛ کلام، اور ارادہ پر دلالت کرتا ہے ۔لیکن صفات کی نفی کرنے والوں نے متکلم اور مرید اور خالق اور عادل کو یوں قرار دیا کہ یہ ایسے معانی پر دلالت کرتے ہیں جو اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔ اور حی؛ علیم اور قدیر کے متعلق کہتے ہیں کہ:یہ ایسے معانی پر دلالت نہیں کرتے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور نہ ایسے پرجو اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہیں ۔ اور وہ تمام امور جن سے رب تعالیٰ نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے یعنی اس کا کلام و مشیت ،اس کی محبت اور بغض ،اس کی رضا اور غضب ،یہ سب کے سب مخلوقات اور اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہیں ۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایسی صفات کے ساتھ موصوف قرار دیتے ہیں جو اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔پس اس طرح وہ صریح عقل ،شریعت اور لغت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ صریح عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ صفت جب کسی محل کے ساتھ قائم ہو تو اس کا حکم اس محل کی طرف لوٹتا ہے نہ کہ غیر کی طرف۔ پس جس محل کے ساتھ حرکت ،سواداور بیاض قائم ہیں ؛ وہی محل متحرک اسود اور ابیض ہوتا ہے نہ کہ کوئی اور محل ۔اسی طرح وہ ذات جس کے ساتھ کلام ،ارادہ حب،بغض اور رضا قائم ہے وہی ذات متکلم ،مرید ،محب ،بغض رکھنے اورراضی ہونے کی صفات سے موصوف ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ذات نہیں ۔ اور جس کیساتھ کوئی صفت قائم نہ ہو تو وہ اسکے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتا۔ پس جس ذات کے ساتھ کلام ارادہ ، حرکت ،سواد اور فعل قائم نہیں تو اس کے متعلقیہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ متکلم یا مرید یا متحرک یا وہ اسود یا فاعل ہے ۔اور رہا یہ کہ اگر کوئی ایسا معنی نہ ہو جس سے موصوف ہو سکے تو اس کو اسمائِ معانی سے موسوم بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ان لوگوں نے تو اللہ کی ذات کو حی ،عالم اور قادر کے الفاظ کے ساتھ موسوم کیا ہے؛ باوجود یکہ ان کے نزدیک اللہ کے لیے صفت ِ حیات ،یا علم اور قدرت ثابت نہیں ۔ایسے ہی اس کولفظ ’’مرید اورمتکلم کے ساتھ موسوم کیا ہے باوجود یکہ ارادہ اور کلام قائم بالغیر ہیں ؛ اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کو خالق اور فاعل قرار دیتے ہیں تو ان پر یہ الزام آتا ہے کہ کیسے وہ اس کو اس کے ساتھ موسوم کرتے ہیں ؛ جبکہ ان کے نزدیک اس کیساتھ صفت ِ فعل قائم نہیں ۔پس ان کا یہ عقیدہ انہی کے قول کے جنس میں سے ہے۔ اور کتاب و سنت کے نصوص نے اللہ تعالیٰ کا ان صفات سے موصوف ہونا ثابت کیا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔ اور لغت بھی واجب کرتی ہے کہ مشتق کا صدق مشتق منہ کے صدق کو مستلزم ہے۔ پس جب (کسی ذات پر )اسم فاعل اور صفت مشبہ صادق آنے سے مسمی مصدر کا صادق ہونا واجب ہوتا ہے۔پس جب کہا جائے کہ وہ قائم ہے