کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 484
ساتھ قدیم ہیں اور اس بات کو کہ وہ اللہ تعالیٰ اُن ذوات کی طرف محتاج ہیں پس بتحقیق اس نے اُن پر (یعنی اہل سنت والجماعت پر )جھوٹ باندھا اس لیے کہ اس مقام میں اہل نظر کے چار اقوال ہیں : ۱۔صفات کا ثبوت ۲۔اور احوال کا ثبوت ۳۔اور دونوں کی نفی ۴۔ا ور احوال کا ثبوت نہ کہ صفات کا۔[1] پس پہلا قول تو ان جمہور اہل نظر کا ہے جو اللہ کیلئے صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی وجہ سے عالم ہے ،اپنی قدرت کے ساتھ قادر ہے اور اس کا علم بعینہ اس کی عا لمیت ہے اور اس کی قدرت بعینہ اس کی قادریت ہے۔ اور صفات کی نفی کرنے والے عقلاء جیسے کہ ابو الحسین بصری رحمہ اللہ [2]۔ اور اس کے علاوہ دیگر ،وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا حی ہونا اس کا عالم ہونا نہیں (یعنی دونوں صفات کا آپس میں فرق اور جداگانہ ہیں )۔اور اس کا عالم ہونا ا س کا قادر ہونا نہیں یعنی ان میں فرق ہے۔ اسی طرح ان میں سے وہ لوگ جو اللہ کے لیے احوال کو ثابت کرتے ہیں تو یہ بعینہ ان جمہور علماء کا مذہب ہے جو صفات کو ثابت کرتے ہیں نہ کہ احوال کو[3]۔ لیکن جس نے (اللہ تعالیٰ کیلئے )صفات کیساتھ احوال کو بھی ثابت ماناجیسے قاضی ابوبکر ،قاضی ابو یعلیٰ اور قاضی ابولمعالی اپنے قدیم قول کے مطابق؛ تو ان لوگوں کی طرف ان لوگوں کا ردّ متوجہ ہوتا ہے جو صفات کی نفی کرنے والے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو صفات اور احوال سب کی نفی کر تے ہیں ؛ جیسے ابو علی اور اس کے علاوہ دیگر معتزلہ؛ تو یہ لوگ اسماء اور احکام کے ثبوت کو تسلیم کرتے ہیں ۔مگر یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ حی ،علیم اور قدیر ہے پس اللہ کے بارے میں ان اسماء سے خبر دینا جائز ہے اور اس پر ان کا حکم لگانا بھی جائز ہے (مثلاً اللہ تعالیٰ کو حیی کہنا )۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کو اِن اسماء کے ساتھ موسوم بھی کرتے ہیں ۔ اگر وہ بعض صفاتیہ سے یہ کہیں : کہ تم تو اس بات میں موافق ہو کہ بیشک اللہ تعالیٰ خالق اور عادل ہے؛ اگر
[1] ابو ہاشم الجبائی ان احوال کا قائل تھا۔ شہرستانی نے الملل و النحل ۱؍۷۶ پر ان کا خلاصہ پیش کیا ہے؛ کہتا ہے: ’’ اور ابو ہاشم کے نزدیک وہ بذاتہ عالم ہے؛ یعنی اس کی دو حالتیں ہیں ۔ اور اس کی ذات کے موجود ہونے کے پیچھے یہ اس کی معلوم شدہ صفت ہے۔ اور بیشک صفت کو ذات سے جانا جاتا ہے انفرادیت سے نہیں ۔ پس اس نے یہ احوال ثابت کئے ہیں : ۱۔ نہ ہی موجود نہ ہی معدوم؛ نہ ہی معلوم نہ ہی مجہول۔ یعنی جو بھی ہو ؛ وہ اپنے حال پر ہے اور ذات کے بغیر اس کی معرفت ممکن نہیں ۔ [2] بعض جگہ پر غلطی سے ابو الحسن بصری لکھا گیا ہے؛ جو کہ درست نہیں ؛ وہ تابعی اور ایک معتمد عالم تھے۔ یہ ابو الحسین محمد بن علی الطیب البصری ہے۔ [لسان المیزان ۵؍ ۲۹۸ ؛ تاریخ بغداد ۳؍ ۱۰۰۔] [3] ان کے اس عقیدہ کی خرابیان شہرستانی نے ذکر کی ہیں ۔ اس نے شیعہ کے ہاں مفہومات اور اعتبارات ؛ او رابو ہاشم کے ہاں احوال میں امتیازات اور ابو حسین کے ہاں صفات کے امتیازات ذکر کئے ہیں ۔یہ سبھی ایک ہی ڈگر پر چلتے ہیں ؛ اور سبھی ایسے مدلولات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کے خواص اور حقائق مختلف ہیں ۔ دیکھو: الملل و النحل ۲؍ ۹۔ اور ۱؍۷۷۔