کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 483
’’ جس کا آخری کلام لا الا اللہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اور ارشاد فرمایا : (( لقنوا موتاکم لا إلہ إلا اللّٰہ ۔))[1]
’’ اپنے اموات کو لا الا اللّٰہ کی تلقین یا کرو۔‘‘
اور یہ تمام کی تمام احادث صحیح ہیں اور یہ تمام امور میں سب سے زیادہ اظہر اور واضح بات ہے جوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں سے ضرورتاً اور بدیہی طور پر معلوم ہیں اور وہ اللہ کی توحید ہے یعنی کہ لا الا اللّٰہ ۔
رہا قدیم ازلی ذات کا ایک ہونا تو یہ لفظ نہ تو کتاب اللہ میں پایا جاتا ہے نہ اس کی نبی کی سنت میں بلکہ اللہ کے ناموں میں بھی کہیں ’’قدیم ‘‘نہیں آیا اگرچہ اس کے ناموں میں لفظِ ’’اول ‘‘ہے اور اقوال دو قسم پر ہیں :ایک تو وہ جو کتاب اور سنت میں منصوص ہیں ان کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہر مسلمان پر واجب ہے اور جس کے لئے نص اور اجماع میں کوئی اصل نہیں اس کا قبول کرنا اور رد کرنا واجب نہیں یہاں تک کہ اس کا معنی معلوم ہو جائے پس کسی قائل کا یہ کہنا کہ قدیم اور ازلی ذات ایک ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ صفت ازلیت اور قدم کے ساتھ مختص ہے یہ ایک لفظ مجمل ہے اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان صفات کی وجہ سے جو کہ اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں وہ قدیم ،ازلی ہے نہ کہ اس کی مخلوقات (یعنی وہ قدیم ازلی نہیں )تو یہ بات تو حق ہے لیکن یہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے ۔
اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم ازلی وہی ذات ہے جس کے لئے کوئی صفت ثابت نہیں نہ صفتِ حیات ،نہ صفتِ علم اورنہ صفتِ قدرت اس لیے کہ اگر اس کے واسطے صفات ثابت ہوں تو وہ اس کے ساتھ صفتِ قدم میں شریک ہوں گی اور پھر وہ صفات بھی الوہیت کے ساتھ موصوف ہو جائیں گی اور یہ صفت اس رب تعالیٰ کا اسم ہے جو حی ،قدیم اور قدیر ہے اور ایسا حی ذات خارج میں ممتنع (الوجود)ہے جس کے لیے حیات ثابت نہ ہو نیز ایسی قدیر ذات بھی ممتنع ہے جس کیلئے کوئی قدرت ثابت نہ ہو جس طرح کہ اس کے اور امثال اور نظائر میں یہ ممتنع ہے ۔
اور جب کوئی قائل یہ کہے کہ اس کی صفات اس کی ذات پر زائد ہیں تو مراد یہ ہے کہ وہ اس تفصیل پر زائد ہیں جس کو صفات کی نفی کرنے والے ثابت کرتے ہیں یہ نہیں کہ نفس الامر میں بھی یہ کوئی ایک ایسی ذات ہے جو صفات سے مجرد ہے اور صفات اس پر زائد ہیں اس لیے کہ یہ بات تو باطل ہے اور جس نے اہل سنت والجماعت سے یہ بات نقل کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئی اورذواتِ قدیمہ کو بھی ثابت کرتے ہیں جو اس کی قدم کے
[1] مسلِم 2؍631؛ کتاب الجنائِزِ، باب تلقِینِ الموتی لا ِلہ ِلا اللّٰہ..... سننِ أبِی داود 3؍259؛ کتاب الجنائِزِ، باب فِی التلقِینِ.... ؛ سننِ التِرمِذِیِ 2؍225؛ ِکتاب الجنائِزِ، باب فِی تلقِینِ المرِیضِ عِند الموتِ والدعاِ لہ؛ .... سنن ابن ماجہ 1؍464؛ کتاب الجنائِزِ، باب ما جاء فِی تلقِینِ المیِت....۔‘‘