کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 481
ہوگا اور وجود مخصوص حقیقت مختصہ کے مطابق و موافق؛ دونوں کا مسمی ایک ہوگا، مگر تسمیہ کی جہت متعدد ہوگی۔ مثلاً کہا جاتا ہے: ’’ھٰذَا ہُوَ ذَاکَ ‘‘ اس میں مشارالیہ ایک ہے مگر جہتیں مختلف ہیں ۔ ایسے ہی جب یہ دو وجود کلی کے مسمیٰ میں مشترک ہوتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے وجود کی خاصیت کے اعتبار سے دوسرے سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ جب دو انسان یا دو حیوان مسمیٰ انسانیت یا حیوانیت میں مشترک ہوں تو ان میں سے ہر ایک اپنی خاص انسانیت یا خاص حیوانیت کے اعتبار سے دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ اور اگریہ مان لیا جائے کہ وجود کلی خارج میں ثابت ہے ؛ تو پھر بھی اس کے خاص وجود کے اعتبار سے ان کے مابین فرق کیا جانا ممکن ہے ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ وجود اور ماہیت سے مرکب ہے۔تو پھر اس کے خلاف کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ ہر امر ثبوتی کی سلبیت کی شرط کے ساتھ مطلق وجود ہے؛ تو اس کا یہ قول فاسد ترین قول ہے۔ ہم اس مسئلہ پر دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کیلئے اسما و صفات ثابت کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مخلوقات کے مشابہ و مماثل ہے۔[1] اللہ تعالیٰ کے مخصوص بالقدم اوربالازل ہونے کے عقیدہ پرتبصرہ: رافضی مصنف کے اُس قول پرتبصرہ کہ اللہ تعالیٰ ازلیت اور قدم کی صفت کے ساتھ خاص ہے۔ رہا اس کا یہ کہنا کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازلیت اور قدم کے ساتھ مخصوص ہے تو جواب میں : اولاً یہ کہا جائے گا کہ تمام مسلمان اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ کے ماسوا تمام مخلوق حادث ہیں بعد العدم اور وہی ذات صفت ِ قدم او ازلیت کے ساتھ مختص ہے۔ ثانیاًیہ کہا جائے گا کہ: کتاب و سنت میں جو بات آئی ہے وہ تو الوہیت کا توحید ہے پس اللہ کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں ،یہی وہ توحید ہے جس کو لے کر اللہ تعالیٰ کے رسل آئے اور انہی تعلیمات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اتاریں ؛ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾(البقرۃ ۱۶۳) ’’اور تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بے حد رحم والا مہربان ہے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] اس میں شبہ نہیں کہ باری تعالیٰ ایسی صفات سے متصف ہے جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں ، یہ صفات اسی طرح قدیم، ازلی اور واجب ہیں جس طرح اس کی ذات قدیم و واجب ہے، اس میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ۔یہ کہنا کہ اسماء الٰہی ثابت ہیں مگر صفات نہیں ، ایک قسم کا عقلی مغالطہ ہے۔ مزید برآں یہ نظریہ قرامطہ کی پیروی کا غماز ہے۔ جمہور کے نزدیک یہ تقسیم ایک شنیع قسم کی خطا اور بدعت ہے۔ سنت کی پیروی کرنے والے اہل حق کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جسمانیت سے ہر گز موصوف نہیں ہوسکتا۔ (تعالی اﷲ عن ذلک )۔ بلکہ دور جاہلیت اور دور اسلام کے عرب بھی اﷲ تعالیٰ کو جسم سے منزہ تصور کرتے تھے]