کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 480
لیے بولا جاسکتا ہے۔
بعض لوگوں کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اگر مشترک المعنی لفظ کو کلی مشکک قرار دیا جائے؛کیونکہ واجب الوجود کا ہونا ممکن سے زیادہ اولیٰ ہے۔یہ اس شبہ کا خلاصہ ہے۔جبکہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ اس لیے کہ مشترک کلی میں تفاضل معنی ممتنع نہیں ہے۔ یعنی معنی اپنے اصل میں دو چیزوں کے مابین مشترک ہو۔ جیسا کہ ’’سواد‘‘ یعنی سیاہ ؛ دو چیزوں میں مشترک ہوسکتاہے؛ مگر ان دونوں میں فرق بھی ہوتا ہے۔ان میں سے بعض کی سیاہی دوسرے کی نسبت بہت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ [یعنی ان کے افراد یکساں نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ ان میں تفاوت پایا جاتا ہے]۔ تو اس سے جملہ شبہات کا فور ہوجاتے ہیں اس لیے کہ واجب الوجود میں جو وجود پایا جاتا ہے وہ ممکن الوجود کی نسبت اعلیٰ واولیٰ ہے۔[[مگر یہ ہر گز درست نہیں اس لئے کہ مشترک کلی کے ایک فرد میں اگر معنی کی زیادتی ہوگی تو اس سے اس کے مشترک ہونے کی نفی نہیں ہوتی، وہ لفظ پھر بھی مشترک ہی رہے گا، اس لئے کہ وہ دونوں پر یکساں طور سے بولا جاتا ہے]]۔
ایک گروہ کے نزدیک وجود کلی متواطی عام ہے؛جس کے جملہ افراد یکساں ہوتے ہیں ۔ اس رائے میں خالق کا وجود اس کی حقیقت سے زائد ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس کی حقیقت اور وجود میں کوئی فرق و امتیاز نہیں پایا جاتا وہ وجود کو مشترک لفظی قرار دیتا ہے۔اس طرح کے عقائد پر ہم دوسری جگہ تفصیل سے کلام کرچکے ہیں ۔
خلاصہ کلام ! اس ضمن میں غلطی کی اصل وجہ لوگوں کا یہ وہم ہے کہ ان اسماء عامہ (مثلاً وجود، علم اور قدرت وغیرہ) کا مسمّٰی ایک کلی ہے اور یہ ایک چیز میں بھی وہی ہے جو دوسری میں ۔ حالانکہ یہ درست نہیں اس لئے کہ جو چیز خارج میں موجود ہو وہ ایک عام[مطلق] کلی کی حیثیت سے پائی نہیں جاتی، بلکہ وہ ہمیشہ معین ومخصوص ہوگی۔ ان اسماء سے جب اﷲ تعالیٰ کو موسوم کیا جائے گا تو ان کا مسمی مختص ہو گا اور جب بندے کو ان سے موسوم کیا جائے گا تو بندہ کے ساتھ ان کا اپنا اختصاص ہوگا۔پس اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حیات میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہوسکتا۔ بلکہ کسی ایک متعین کا وجود اس کے ساتھ خاص ہوتا ہے جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہوتا ؛ تو پھر خالق کے بارے میں اشتراک کا کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ جب یہ کہا جائے کہ عبد و معبود صفت وجود میں مشترک ہیں تو یہ اشتراک صرف وجود ذہنی میں پایا جاتا ہے؛ ماہیت و حقیقت اور ذات کے اعتبار سے ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ضروری ہے[ان میں اس اعتبار سے کوئی اشتراک نہیں ہوتا]۔
جیسے اس کی ایک حقیقت ہے جو اسی کے ساتھ خاص ہے؛ ایسے ہی اس کا وجود بھی اس کے ساتھ خاص ہے۔ اس غلطی کا منشا و مصدر یہ ہے کہ وجود کو علی الاطلاق اخذ کیا گیا ہے اور حقیقت کو مخصوص قرار دیا گیا۔ حالانکہ وجود اور حقیقت دونوں کو مطلقاً بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، اور ان کو مخصوص بھی کر سکتے ہیں ۔ اندریں صورت وجود مطلق حقیقت مطلقہ کے مساوی ہوگا اور وجود مخصوص حقیقت مختصہ کے برابر ۔ گویا وجود مطلق حقیقت مطلقہ سے ہم آہنگ