کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 479
القِدَم بھی ہو؛ موجود بنفسہ بھی ہو اور غیر موجود بنفسہ بھی ہو۔ اپنے علاوہ دوسروں سے غنی اور بے نیاز ہوبھی اورنہ بھی ہو۔ خالق ہو لیکن مخلوق کو پیدا کرنے والا نہ ہو۔ پس اگر ان دونوں کے مابین تماثل کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے اجتماع ِ نقیضین لازم آتا ہے؛ جو کہ صریح عقل کی روشنی میں منتفی ہے۔اور نصوص شریعت بھی اس کا انکار کرتی ہیں ۔جب کہ عقل اور شریعت کا دوسرے امور میں اتفاق ہے۔ جیسا کہ ان دو میں سے ہر ایک موجود ثابت ہے؛اور اس کی اپنی حقیقت اور ذات ہے؛ جو کہ خود اس کا اپنا وجود ہے؛ اور جسم جو کہ اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے؛ وہ خود ہی اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ پس ان واضح براہین کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بعض وجوہات کی بنا پر ان کے مابین اختلاف ہے؛ اور بعض وجوہات کی بنا پر اتفاق ہے۔ پس جو کوئی ان کے اتفاقیہ امور کی نفی کرتا ہے؛ وہ معطل اور باطل عقیدہ کا پیروکار ہے۔ اور جو کوئی ان کو مماثل کہتا ہے؛ وہ بھی مشبہ اور باطل عقیدہ کا پیروکار ہے۔واللہ اعلم ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دومسمیٰ میں آپس میں کسی قدر اتفاق ہو؛ تو اس کے باوجود بھی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنے وجود؛ علم و قدرت اور دیگرصفات اور خصوصیات میں بندے کی مشارکت سے پاک ہے۔ اگرچہ وجود ،علم اور قدرت کی صفات عبد اور معبود دونوں میں پائی جاتی ہیں اور وہ دونوں اس کے ساتھ موصوف ہیں ؛ لیکن اللہ تعالیٰ اس سے منزہ ہیں کہ کوئی بندہ اس کی خصوصیات میں اس کا شریک ہو۔علم و قدرت اور وجود کی یہ مشترک صفات اگرچہ آپس میں متفق ہیں ؛لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ذہن انسانی میں ایک کلی کی حیثیت رکھتی ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں اور ان میں سے جو صفات موجودات عالم میں پائی جاتی ہیں وہ جدا گانہ نوعیت کی ہیں ۔اور ان میں سرے سے کوئی اشتراک موجود نہیں ۔یہ وہ مقام اضطراب ہے جہاں پر بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ان صفات کے متحدفی الاسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صفت ’’وجود ‘‘ جو باری تعالیٰ میں پائی جاتی ہے ، وہی بندے میں ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ وجود کا لفظ مشترک لفظی کے لیے بولا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی عقلیں بہت لڑائیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسماء عام اور قابل تقسیم ہیں اور سب ایک ہی قسم کی نہیں ، مثلاً کہا جاتا ہے، کہ وجود کی چار قسمیں ہیں : ۱۔واجب الوجود ۲۔ممکن الوجود ۳۔قدیم ۴۔حادث ان اقسام میں مورد تقسیم مشترک [لفظ]ہے۔ اور ایسے ہی بعض الفاظ مشترک المعنی ہوتے ہیں ، مثلاً ’’مشتری ‘‘ ایک ستارہ کا نام بھی ہے، اور خریدار کو بھی مشتری کہتے ہیں ۔جب یہ لفظ ستارے کے لیے بولا جائے تو اس وقت اس کے معنی کی تقسیم ممکن نہیں ۔ لیکن جب اس سے مراد خریدار ہو تو پھر کبھی اس کے لیے اور کبھی اس کے