کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 476
وَیَسِّرْہُ لِی ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الاَمْرَ شَرٌّ لِّی فِی دِیْنِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ اَمْرِی فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِی بِہٖ ۔))[1] ’’اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ خیر کا مطالبہ کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ قوت کا مطالبہ کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں اس لئے کہ تو طاقت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے میں نہیں جانتا اور تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے اے اللہ اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ کام میرے لئے میرے دین‘ میری معیشت اور میرے کام کے انجام میں بہتر ہے تو اسے میرے مقدر میں کر دے اور میرے لئے اس کو آسان کر دے پھر میرے لئے اس میں برکت ڈال دے اور اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ کام میرے لئے میرے دین‘ میری معیشت اور میرے کام کے انجام میں برا ہے تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے مقدر میں بھلائی رکھ دے جہاں بھی ہو پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔‘‘ اور سنن نسائی کی روایت میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں دعا فرمایا کرتے تھے: ((اَللّٰھُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ اَحْیِنِیْ مَاعَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِّیْ وَتَوَفَّنِی اِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِّیْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَشْیَتَکَ فیِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ وَاَسْئَلُکَ وَکَلِمَۃَ الْحَقِّ فیِ الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَ اَسْئَلُکَ الْقَصْدَ فِیْ الْغِنٰی وَالْفَقْرِ وَاَسْئَلُکَ نَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَاَسْئَلُکَ قُرَّۃَ عَیْنٍ لَّا تَنْقَطِعُ وَاَسْئَلُکَ الرِّضا بَعْدَ الْقَضَائِ وَاَسْئَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَاَسْئَلُکَ لَذَّۃَ النَّظْرِاِلٰی وَجْھِکَ وَالشِّوْقَ اِلٰی لِقَآئِکَ فِیْ غَیْرِ ضَرَّآئَ مُضِرَّۃٍ وَّلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ۔ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ھُدَاۃً مُھْتَدِیْنَ۔))[2] ’’اے اللہ ! اپنے غیب جاننے اور مخلوق پر تیرے اختیار کے واسطے سے مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تیرے علم کے مطابق زندگی میرے لیے بہتر ہو اور اس وقت مجھے فوت کرنا جب تیرے علم کے مطابق موت میرے لیے بہتر ہو۔ اے اللہ ! بے شک میں طالب ہوں تجھ سے تیری خشیت کا غائب اور حاضر
[1] بخاری کتاب التہجد(1162) ابو داؤد کتاب الوتر (1538) [2] نسائی ؛ کتاب السہو :1306 ؛ مستدرک حاکم ۱؍۵۲۴۔کتاب الدعا باب دعاء عمار بن یاسر؛ قال حاکم: حدیث صحیح و لم یخرجاہ۔