کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 473
گا کہ اس کا علم تو ہے؛ مگر قدرت اور زندگی نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ صفات انسان میں پائی جاتی ہیں تو اس سے یہ کہنا بھی لازم آتا ہے کہ اسے حیی اورقدیر بھی نہ کہا جائے ؛ کیونکہ انسان بھی ان صفات سے موصوف ہوتا ہے۔ اور تقریباً یہی اعتراض صفت کلام؛ سماعت؛ بصارت اور رؤیت اور دیگر پر بھی وارد ہوتاہے۔
وہ اہل سنت والجماعت کے ساتھ اس میں موافقت رکھتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ موجود ہیں ؛ اوروہ زندہ ؛ علیم اور قادر ہیں ۔ اور مخلوق کو کہا جاتا ہے : موجودہے؛ علیم ہے؛ قدیر ہے۔ تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنے میں تشبیہ ہے؛ پس اس کا انکار کرنا واجب ہے ۔
اس مؤقف پر کتاب و سنت اور صریح عقل دلالت کرتے ہیں ۔ اورکسی عاقل کے لیے اس کی مخالفت کرنا ناممکن ہے۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ایسے نام رکھے ہیں جو اس نے اپنے بندوں میں بعض افراد کو بھی عطا کئے ہیں ۔ اور اپنی بعض صفات کو ایسے نام دیے ہیں جونام اس نے اپنی مخلوق میں سے بعض کی صفات کو بھی دیے ہیں ۔ لیکن دو مسمیٰ بالکل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو حیی ؛ علیم اور قدیر؛ رؤوف و رحیم؛ عزیز وحکیم؛ سمیع و بصیر؛ اور ملک اور مؤمن اور جبار و متکبر کہا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﴾[البقرۃ۲۵۵]
’’اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔‘‘
﴿ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ ﴾(شوری50)
’’یقیناً وہ علم والا، اور قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
﴿ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾(البقرہ ۲۲۵)
’’بلکہ تمھیں اس پر پکڑتا ہے جو تمھارے دلوں نے کمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت بردبارہے۔‘‘
﴿ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾(البقرہ ۲۲۸)
’’اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾[الحج ۶۵]
’’بے شک اللہ یقیناً لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
﴿اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ﴾[النساء۵۸]
’’بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘
﴿ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ﴾ (الحشر23)