کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 471
عقل کے بھی مخالف ہے رہا ان لوگوں کا کتاب و سنت کی نصوص کی مخالفت کرنا اور ان روایات کی جو امت کے اسلاف سے استفاضہ اور شہرت کے ساتھ ثابت ہیں تو یہ بالکل ایک ظاہر اور مشہور بات ہے جس میں پورے عالم پر کوئی خفا نہیں ، اس وجہ سے انہوں نے اپنے دین کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ توحید اور صفات کے باب میں ان چیزوں کی اتباع نہیں کی جائے گی جس پر کتاب و سنت اور اجماع دلالت کر ے اور ان امور میں اتباع کی جائیگی جو اپنی عقلوں کی قیاس سے ثابت ہوں اور عقول کا فیصلہ اس کو درست سمجھے ۔
رہے کتاب و سنت کے نصوص تو وہ یا تو اس میں تاویل کرتے ہیں یا پھر اس میں تفویض کا طریقہ اختیار کرتے ہیں یا پھر یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود تو یہ ہے کہ وہ جمہور کے ذہنوں میں ایک ایسا عقیدہ ڈالیں جس کے ذریعے وہ دنیا میں فائدہ حاصل کریں اگرچہ وہ محض جھوٹ اور باطل ہو جس طرح کہ یہ بات فلاسفہ اور ان کے متبعین بھی کرتے ہیں اور ان کے قول کی حقیقت یہ ہوئی کہ العیاذ باللہ تمام رسل نے ان باتوں میں جھوٹ کا راستہ اختیار کیا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ ، ملائکہ اور اس کی کتا بوں اور اس کے رسل اور یوم آخرت کے بارے میں امتوں کو بتلائی ہیں بوجہ ان دنیاوی مصالح کے جو انہوں نے لوگوں کے حق میں دیکھے۔
رہا تیسرا گروہ تو انہوں نے نفی اور اثبات میں ان تعبیرات کو اختیار کیا جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں اور کتاب و سنت پر استدلال اور مضبوطی سے تھامے بغیر جس کی نفی اور اثبات میں اہل نظر کا اختلاف ہے تو اس میں انہوں نے اس کی موافقت نہیں کی یعنی ان کی اُن بدعات میں جو شریعت میں انہوں نے نکالی ہیں اور انہوں نے عقلی فیصلے کی بھی مخالفت کی ہے بلکہ یا تو یہ لوگ ان کی بدعات پر تکلم سے بالکل کفِ لسان (پہلو تہی )اختیار کرتے ہیں خواہ نفیاً ہو یا اثباتاً یا لفظِ مجمل اور ملفوظِ مجمل میں قول کی تفصیل بیان کرتے ہیں پس جس کا اثبات شرع اور عقل کے موافق ہو اس کو ثابت کر دیتے ہیں اور جس کی نفی شریعت اور عقل کرتی ہو تو اس کی نفی کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ادلہ صحیحہ علمیہ کے درمیان تعارض متصور ہی نہیں خواہ وہ عقلی دلائل ہوں یانقلی دلائل اور کتاب و سنت بسا اوقات صیغہ اِخبار کیساتھ دلالت کرتا ہے اور بسا اوقات تنبیہ کے ساتھ اور کبھی ارشاد اور کبھی ادلہ عقلیہ کے بیان کے ذریعے اور علم الاہیات میں تو اربابِ نظر کے نزدیک جو کچھ ہے ان تمام امور کا خلاصہ وہ یقینی ادلہ اور معارفِ الہیہ ہیں جو کتاب و سنت میں صراحتاًیا اشارۃ ًمذکور ہیں ساتھ ایسی زیادات ،تکمیلات اور تتمات کے جن پر صرف وہی شخص پر مطلع ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے الہام فرما دیں (یعنی دل میں ڈال دیں )پس ان تعلیمات میں جن کو پیغمبر لے کر آیا ان میں ایسی عقلیات اور معارفِ یقینیہ ہیں جواولین اور آخرین تمام عقول کے ادراکات سے مافوق ہیں (یعنی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے )اور اس جملے میں ایک بہت بڑی تفصیل مضمر ہے جو کئی جگہ تفصیل سے بیان کر دی گئی ہے اور مکمل تفصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام متحمل نہیں اس لیے کہ ہر مقام کے لیے ایک خاص مقال اور خاص قسم کی بات ہوتی ہے جو وہاں مناسب ہوتی ہے لیکن چونکہ روافض نے معتزلہ سے