کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 469
’’مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین‘‘[1] میں اوراسی طرح شہر ستانی نے اپنی کتاب ’’الملل و النحل ‘‘میں ذکر کیا ہے۔ اور ان کے علاوہ دیگر علما نے جسم اور تشبیہ کے مسئلہ میں کرامیہ اور ان کے ان اتباع سے بھ بہت کچھ نقل کیا ہے جو خلفائے ثلاثہ ک خلافت کو صحیح مانتے ہیں ۔[2] اہل سنت اور اہل تشیع کے مختلف گروہ قدما ائمہ امامیہ سے تجسیم اور تشبیہ کے مسئلہ میں ایس منکر باتیں روایت کر رہے ہیں کہ ایس باتیں کرامیہ اور دوسرے لوگوں سے معلوم نہیں ہوسکیں ۔فرقہ امامیہ کے وہ قدیم أئمہ جو تجسیم اور تشبیہ کے منکر ہیں اُن سے اہل سنت اور خود روافض ایسے اقوال نقل کرتے ہیں جو کرامیہ اور ان کے اتباع سے بھی منقول نہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر ’’جسم ‘‘کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے جیسے کہ محدثین ،مفسرین اور صوفیاء اور فقہاء اور آئمہ اربعہ اور ان کے اتباع اور مسلمانوں کے مشہور علماء و مشائخ ؛اور جو ان سے پہلے گزرے ہیں یعنی صحابہ اور تابعین ،ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ اللہ کا ’’جسم ‘‘ہے اگرچہ سلف اور آئمہ میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم نہیں ہے لیکن جس نے ان میں سے بعض کی طرف تجسیم کی نسبت کی ہے تو وہ اس کے اس عقیدہ کے اعتبا رسے ہے کہ اس نے جسم کا ایک خاص معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے اور اس کو غیر کے لیے لازم سمجھا ہے ۔ پس معتزلہ اور جہمیہ اور ان کے امثال جو کہ صفات کی نفی کرنے والے ہیں انہوں نے ہر اس شخص کو جو اللہ کے لیے صفات ثابت مانے تو اس کو مجسم اور مشبہ کہا اور ان لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جو آئمہ مشہورین میں سے بعض کو مجسم اور مشبہ کہتے ہیں جیسے امام مالک شافعی اور اس کے اصحاب ۔ اس طرح کہ ان کو ابو حاتم صاحب ’’کتابِ الزینہ‘‘ نے ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ دیگر نے بھی ذکر کیا ہے جب کہ اس نے مشبہہ کے فرق کو ذکر کیا تو ان کے ذیل میں فرمایا کہ ان میں سے ایک گروہ جن کو مالکیہ کہا جاتا ہے اور وہ ایک آدمی کی طرف منسوب ہے جس کو’’ مالک ابن انس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک گروہ ہے جس کو شافعیہ کہا جاتا ہے کیونکہ منسوب ہے ایک آدمی کی طرف جن کو شافعی کہا جاتا ہے۔ اور ان لوگوں کا شبہ یہ ہے کہ آئمہ مشہور ین سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لیے صفات ثابت کرتے ہیں اور
[1] اشعری نے اس بارے میں کلام کیا ہے۔ اشعری اپنی امانت داری اور اپنے مخالفین کا کلام اور عقیدہ بڑی امانت سے نقل کرنے میں بڑا مشہور ہے۔ وہ امامیہ فرقہ کے عقیدہ تجسیم کے بارے میں کہتا ہے: ’’امامیہ روافض کا تجسیم کے بارے میں اختلاف ہے؛ اس سلسلہ میں ان کے چھ فرقے ہیں ‘‘ پھر امام اشعری نے ان کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ دیکھو: المقالاتِ ج۱؍۲۰۳۔ [2] علامہ شہرستانی جن کے متعلق ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ شیعیت کی طرف مائل تھے؛ وہ اپنی کتاب ’’الملل و النحل میں ۱؍۱۵۴‘‘ پر کہتے ہیں : یہی وجہ تھے کہ امامیہ اصول میں نظریہ عدل پر چل پڑے؛ اور صفات میں مشبہہ کی راہ اختیار کرلی۔ وہ ہمیشہ حیران اور سرگرداں ہی رہے۔ پھر اس کے بعد شہرستانی نے ان کا کلام مفصل طور پر پیش کیا ہے۔