کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 468
مصنف کا یہ کہنا کہ’’اللہ تعالیٰ مخلوقات کی مشابہت سے بالکل منزہ ہیں ۔‘‘
تو جواب یہ ہے کہ : اہل سنت والجماعت تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت کے باب میں شیعوں کی بہ نسبت تنزیہ کے زیادہ احق ہیں اس لیے کہ تشبیہ اور تجسیم جو کہ عقل اور نقل کے خلاف ہے۔ اور ان کی مثال امت کے تمام گروہوں میں سے کس ایک بھی دوسرے گروہ میں نہیں ملتی۔اور پھر یہ کہ اس باب میں متأخرین اور قدماء امامیہ کے مابین بہت بڑا تناقض پایا جاتا ہے۔ ان کے قدماء تشبیہ اور تجسیم کے مسئلہ میں غلو کا شکار تھے؛ جب کہ متأخرین نفی اور تعطیل میں غلو کا شکار ہیں ۔ پس اس اعتبار سے یہ لوگ باقی ساری امت کو چھوڑ کر خود اس مسئلہ میں جہمیہ اور معتزلہ کے ہم مسلک و ہم مشرب بن گئے۔
جبکہ اہل سنت و الجماعت جو کہ خلفائے ثلاثہ ک خلافت کو صحیح اور ثابت مانتے ہیں ان کے تمام ائمہ اور مشہور فرقے اللہ تعالیٰ سے تمثیل ک نف پر متفق ہیں ۔ اور خلفائے ثلاثہ ک امامت کو ماننے والوں میں سے جن لوگوں نے اللہ تعال پر لفظ جسم کا اطلاق کیا ہے؛ جیسا کہ کرامیہ ؛وہ ان روافض [امامیہ ]ک نسبت صحیح منقول اور صریح معقول کے زیادہ قریب ہیں جنہوں نے اللہ تعال پر لفظ جسم کااطلاق کیا ہے۔[1]
جس طرح کہ ابن نو بختی نے اپنی کتاب ’’الکبیر ‘‘[2]میں اور ابو الحسن اشعری نے اپنی معروف کتاب
[1] یعترِف المامِقانِی فِی ترجمۃِ ہِشامِ بنِ الحکمِ؛ تنقِیحِ المقالِ 3؍294 ؛ بکِثرۃِ الأخبارِ المروِیۃِ عن ہِشام فِی التجسِیمِ حتی أن الِکلِینِی ذکر خمس مِنہا فِی الکافِی ؛ وینقل المامِقانِی عن ہِشام نص خبر مِن ہذِہِ الأخبارِ الخمسِ ؛ یقول ہِشام:’’إِن اللہ جِسم صمدِی نورِی۔‘‘ کما ینقل عنِ البرقِیِ قولہ إِن ہِشاما کان مِن غِلمانِ أبِی شاکِر الدِیصانِی الزِندِیقِ وإنہ کان جِسمِیا ردِیئا. وفِی أخبارِ الرِجال لِلکشِیِ فِی ترجمۃِ ہِشامِ بنِ سالِم الجوالِیقِیِ9 83؛ أنہ کان یزعم أن اللہ صور وأن آدم خلِق علی مِثلِ الربِ ثم یشِیر ِإلی جنبِہِ وشعرِ رأسِہِ لِیبیِن المماثلۃ.
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کے عقیدے کا اظہار ان کے علامہ ہشام بن الحکم نے کیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کا جسم ہے، جس کی ایک حد اور انتہا ہے۔ وہ طویل وعریض اور گہرا ہے۔ اس کا طول اس کے عرض جتنا ہے۔ اور بے شک اﷲ کا جسم اس کی بالشت کے حساب سے سات بالشت ہے۔ أصول الکافی: ۱؍ ۷۳( کتاب التوحید، باب النھی عن الصفۃ بغیر .... ‘‘ تفسیر البرہان ۴۱۔ بحار الأنوار:۳؍ ۲۸۸( باب نفی الجسم والصورۃ .... ‘‘ التبنیہ والرد:۲۴۔
حتی کہ ان کے صدوق نے محمد بن الفرج الرخجی سے روایت ہے ‘ وہ کہتا ہے: ’’ میں نے ابو الحسن علیہ السلام کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ تجسیم کے متعلق ہشام بن حکم کے عقیدہ کی کیا حقیقت ہے؟ اور صورت کے متعلق ہشام بن سالم کے عقیدہ کی کیا حقیقت ہے ؟ تو انہوں نے جواب میں لکھا: ’’ حیران کی حیرانگی ودرماندگی کو چھوڑ دے ‘ اورشیطان مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ؛ جو کچھ یہ دونوں ہشام کہتے ہیں ؛ یہ کوئی عقیدہ نہیں ہے۔‘‘ [التوحید ‘۹۴۔ باب : أنہ عزو جل لیس بجسم و لا بصورۃ۔ ]
[2] تکلمت مِن قبل عل النوبختِیِ وِکتابِہِ ’’ الآراء والدِیانات ‘‘ وقد ذکر عنہ النجاشِی فی الرِجال، ص :9 0 ؛ أنہ ِکتاب کبِیر حسن یحتوِی علی علوم کثِیرۃ .