کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 467
تألیف کی۔[1] رہے قدمائے روافض تو ان پر اس قول کا ضد ہی غالب ہے جیسے کہ ہشامین کا اور ان کے اصحاب کا قول پس اگر یہ قول حق ہوتا تو اس کو اختیار کرنا اور تینوں آئمہ کی خلافت کے اثبات کے ساتھ معتزلہ کی موافقت کرنا بھی ممکن ہوتا اور اگر یہ باطل ہے تو اس کی طرف کوئی حاجت ہی نہیں اور مناسب ہے کہ وہ ایک ایسی بات ذکر کریں جو امامت کے ساتھ خاص ہو جیسے کہ بارہ آئمہ کے اثبات کا مسئلہ اور ان کی عصمت کا مسئلہ ۔ وجہ چہارم : ان سے یہ کہا جائے گا کہ اس کلام میں جس قدر حق بات موجود ہے؛ اہل سنت و الجماعت سارے کے سارے یا پھر ان کی اکثریت یعنی جمہور امت اس کا اقرار کرتی ہے۔ اور جو کچھ اس میں باطل ہے؛ وہ رد ہے۔ اس مسئلہ میں جتنا کچھ بھی حق ہے وہ اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ سے خارج نہیں ہے۔ ہم اس مسئلہ کو آگے چل کر تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ۔ ابن مطہر کے کلام کی پہلی قسم پر تفصیل رد: ابن مطہر کا قول کہ : ’’ اللہ تعالی مخلوقات کی مشابہت سے بالکل منزہ ہیں ۔‘‘ وجہ پنجم :....مصنف کا یہ کہنا کہ:بلاشک و شبہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعال ازلیت اور قدامت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اللہ تعال کے سوا جو کچھ بھ ہے؛ وہ مخلوق ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے؛ اور اس کا نہ ہ جسم ہے اور نہ ہ وہ کس مکان میں ہے۔اگر ایسے ہوتا تو اللہ تعالیٰ بھی محدث ہوتا۔بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کی تشبیہ سے منزہ مانتے ہیں ۔ جواب:.... مصنف کا اشارہ جہمیہ اور معتزلہ کے مذہب ک طرف ہے۔ اور اس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نہ ہ کوء علم اور نہ ہ قدرت اور حیات اور یہ کہ اللہ تعال کے اسما حسن جیسا کہ العلیم ؛ القدیر؛ السمیع البصیر؛ الرؤوف؛ الرحیم اور دیگر اسما اللہ الحسنیٰ ان صفات پر دلالت نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔ اوریہ کہ اللہ تعال نہ ہ کلام کرتے ہیں اور نہ ہی راضی یا ناراض ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی محبت کرتے ہیں اور نہ ہی بغض کرتے ہیں ۔ اور صرف وہ چیز چاہتے ہیں جو کہ آپ کے ارادہ اور کلام سے جدا پیدا ہوتی ہے۔اور یہ کہ کلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہوتا ۔
[1] سبق الکلام علی کل مِن المفِیدِ والموسوِیِ والطوسِیِ فِی ہذا الکِتابِ 1؍58. وانظر ترجمۃ المفِیدِ أیضا فِی: الرِجالِ لِلنجاشِیِ، ص ؛ 316؛ أعیانِ الشِیعۃِ لِلعامِلِیِ ط. بیروت 46؍20 ؛ الفِہرِستِ لِلطوسِیِ الطبعۃِ الثانِیۃِ، النجفِ ص 187؛ رِجالِ الأعلامِ الحِلِیِ لِابنِ المطہرِ الطبعۃِ الثانِیۃِ، النجفِ،ص 147؛ الأعلامِ لِلزِرِکلِیِ 7؍245. ؛ وانظر فِی ترجمۃِ الموسوِیِ؛ الشرِیفِ المرتضی أیضاً: أعیان الشِیعۃِ 41؍188 ؛ الفِہرِست لِلطوسِیِ، ص 125 ؛ رِجال الأعلامِ الحِلِیۃ95؛ وفِیاتِ الأعیان ِ 3؍3 ۔