کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 466
ونہی کا صدور ممکن نہیں ۔ اوریہ کہ انبیاء کرام شروع عمر سے آخر تک صغائرو کبائر سے پاک ہوتے ہیں ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی تبلیغ رسالت پر اعتماد نہ رہتا۔ اور ان کی بعثت کا فائدہ ختم ہوجاتا اور ان سے نفرت لازم ہوجاتی۔ اوریہ کہ ائمہ بھی انبیاء کرام کی طرح تک صغائرو کبائر سے پاک ہوتے ہیں ۔
٭ شیعہ اپنے فروعی احکام ائمہ معصومین سے نقل کرتے ہوئے اپنے جدا مجد سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست اخذ کرتے ہیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکام جبریل امین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کئے۔ اور پھر ثقہ راوی اسے نسل در نسل سلف سے خلف تک روایت کرتے رہے یہاں تک کہ یہ روایات معصومین تک پہنچ گئی۔ اور انہوں اجتہاد اور قول بالرائے کی جانب مطلقاً توجہ نہ کی۔اور قیاس و استحسان اور رائے کو حرام سمجھا ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جوابات] :اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتاہے:
وجہ اول :.... [شیعہ کے]: ذکر کردہ مسائل کا مسئلہ امامت سے اصل میں کوئی تعلق نہیں ۔بلکہ بعض امامیہ ان کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔اور بہت سارے ایسے لوگ ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کا امامیہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے کسی کوئی ایک مسئلہ بھی دوسرے پر مبنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ طریقہ سراسر عقلی ہے، اور امام کا تقرر سمعی دلائل کا محتاج ہے۔پس ان مسائل کو امامت کے مسئلہ میں داخل کرنا ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مورد نزاع مسائل کو لاکر اس میں شامل کردیا جائے۔یہ تو مقصود سے دور بھاگنا ہے۔
وجہ دوم:.... یہ تو عقیدہ توحید اور تقدیر کے بارے میں معتزلہ کا عقیدہ ہے ۔ شیعہ اپنے آپ کو اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اور ان معتزلہ سے موافقت رکھتے ہیں جوکہ توحید اور تقدیر میں اہل بیت کے مذہب سے سب لوگوں سے زیادہ دور ہیں ۔ اس لیے کہ ائمہ اہل بیت جیسے حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے سبھی ان عقائد پر متفق ہیں جن پر صحابہ کرام اور تابعین کا اتفاق تھا؛وہ صفات اور قدر کو مانتے تھے۔ منقولات پر مشتمل صحیح کتابیں ان مسائل سے بھری پڑی ہیں ۔ ہم ان میں حضرت علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے منقول چند روایات آگے نقل کریں گے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ شیعہ اصول دین میں اہل بیت کے مخالف ہیں ۔
وجہ سوم :.... انہوں نے جو صفات اور قدر ذکر کیے ہیں وہ شیعہ کے خصائص میں سے نہیں ہیں اور نہ وہ اس قول کو اختیار کرنے میں آئمہ ہیں اور نہ یہ ان تمام شیعوں کا قول ہے بلکہ اس بات میں ان کے آئمہ معتزلہ ہیں اور انہی سے متاخرین شیعہ نے اپنا مذہب لیا ہے اور شیعوں کی کتابیں معتزلہ کے طرقِ استدلال پر اعتماد کرنے سے بھری پڑی ہیں اور یہ تیسری صدی کے اواخر کا حال ہے چوتھی صدی ہجری میں اس مسئلہ کو اس وقت مزید استحکام اور پذیرائی ملی جب شیخ مفید اور اس کے شاگردوں نے ؛جیسے موسوی اور طوسی نے شیعہ مذہب کے لیے تصنیف و