کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 462
کہاں بھٹک رہے ہیں ۔‘‘ اہل قبلہ کے ساتھ ان کی بود و باش بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہودی باقی اہل ملت کے ساتھ رہتے ہیں ۔ پھر ان سے یہ پوچھا جائے گا: دنیا سے بے رغبتی رکھنے والے کون لوگ تھے؟ جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی؟ کیا ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حضرات ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت نہ کی او رحضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی؟ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں کوئی ایک بھی ایسا انسان نہیں تھاجس نے ان کی بیعت سے سرکش ہوکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی ہو۔ بلکہ تمام لوگوں نے ان تینوں خلفاء کی بیعت کرلی تھی۔بس زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : ’’ [کچھ لوگ ایسے تھے ] جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا نظریہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ [اگر واقعی ایسا ہی تھا ؛ حالانکہ یہ سوچ باطل ہے ] تو پھر ان لوگوں کا یہ حال نہیں ہوتا جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔‘‘ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت و خلافت کے دنوں میں لوگ آپ کے اصحاب کو جہاد کے رک جانے [یا کم ہو جانے ]پر؛ اور قتال سے پیچھے رہ جانے پر بہت زیادہ ملامت کرتے تھے۔توپھر شیعہ میں وہ لوگ کہاں تھے جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی؟‘‘ اگر یہ لوگ حضرات صحابہ ابو ذر ‘ سلمان اور عمار رضی اللہ عنہم پر کوئی جھوٹ گھڑیں تو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ یہ تینوں حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی سب سے زیادہ تعظیم کرنے والے ان کے سچے تابع فرماں تھے۔ ہاں ان میں سے بعض سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کچھ بے اعتنائی منقول ہوئی ہے ؛ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے خلاف نہیں ۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو مسلمان متفرق ہوگئے۔ ایک جماعت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف رغبت رکھتی تھی؛ اور دوسری جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف۔ ان دونوں گروہوں کا باہم تصادم بھی ہوا۔اس وقت دونوں جماعتوں کے لوگ قتل ہوئے۔ صحیح مسلم میں ہے : حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں ۔ جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی چھ آدمیوں نے اسی طرح کا ارادہ کیا تھا ؛تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟‘‘