کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 460
ہی جانتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ نے شیعہ پر بد دعا کی : ’’ اے اللہ ! میں ان سے ملول ہوگیا ہوں ‘ تو انہیں مجھ سے ملول کردے ۔ اے اللہ ! مجھے ان کے بدلے میں بہتر ساتھی عطا فرما؛ اور میرے بدلے ان کو برا حکمران عطا فرما۔‘‘ [الاستعیاب ۳؍۶۱] شیعہ حضرت کے ساتھ خیانت و غدر کے مرتکب رہتے تھے۔ آپ کو دھوکہ دیتے ؛ او ران لوگوں سے خط و کتابت کرتے جن سے حضرت برسر پیکار ہوتے ۔ آپ کے ساتھ ولایت اور اموال میں خیانت کے مرتکب ہوتے ۔ اسی لیے تو یہ لوگ رافضی کہلاتے ہیں ۔ جب کہ حقیقی شیعان علی وہ تھے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ؛ تو اس وقت ایک گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حمایتی بن گیا جو شیعان عثمان کہلائے ۔ اور دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حمایتی بن گیا ؛ جو شیعان علی کہلائے۔ پہلے گروہ کے لوگ سب سے بہترین شیعہ تھے۔ جب کہ دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں ؛ جوکہ اس دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خوشبودار پھول تھے ؛کے ساتھ سلوک و معاملات میں سب سے برے لوگ ثابت ہوئے۔ حقیقت میں اس گروہ کے لوگ[ ساری کائنات میں ] سب سے بڑھ کر ملامت کے مستحق ہیں ۔ [یہ لوگ ] فتنہ پھیلانے میں سب سے جلد باز‘ [مقابلہ کی صلاحیت میں ] سب سے عاجز ‘او راہل بیت سے محبت کااظہار کرنے والوں کو سب سے بڑھ کر دھوکہ دینے والے ہیں ۔یہاں تک کہ جب ان پر قدرت حاصل ہوگئی ؛ اورملامت کرنے والوں نے انہیں ملامت کیا تو انہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مال کو ترجیح دیتے ہوئے [حضرت مسلم بن عقیل کو ] دشمن کے سپرد کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ اہل خرد و دانش بڑے بڑے مسلمانوں ؛جیسے حضرت عبد اللہ بن عباس؛ حضرت عبد اللہ بن عمر ؛ ابو بکر بن عبد الرحمن بن الحارث؛ رضی اللہ عنہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوچ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس لیے یہ اکابرین امت [اپنے تجربات کی روشنی میں ] جانتے تھے کہ شیعہ آپ کو ذلیل کریں گے ‘ اور آپ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے‘ اور آپ کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کریں گے۔ پھر ویسے ہی ہوا جیسے ان اکابرین کا خیال تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہماکی دعا قبول فرمائی ؛ اوران پر حجاج بن یوسف کو مسلط کیا۔ جو نہ ہی کسی نیک و کار کی نیکی کا خیال کرتا تھا اور نہ ہی کسی بدکار کی بدی کو معاف کرتا تھا۔ پھر اس شر کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آگئے جو حقیقت میں ان شیعہ میں سے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ شر و فتنہ عام ہوگیا۔ مسلمانوں کی وہ بڑی بڑی کتابیں عام ہیں ؛ جن میں زھاد [و عباد] کا تذکرہ ہے ۔ ان میں ایک بھی رافضی نہیں ہے ۔ اور یہ مصنفین پوری امت میں حق بات کہنے میں مشہور و معروف ہیں ۔ اور انہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی۔ان میں ایک بھی رافضی نہیں ۔ رافضی ان میں کیسے ہوسکتا