کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 46
اگرچہ یہ زمین ہے مگر ساتوں آسمان اس کے تابع ہیں ،
اور عرش عظیم بھی اس کے سامنے جھکتا ہے۔‘‘
اب بتائیے اس کفر صریح کو سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے کیا نسبت جو آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ارشاد فرمایا، ارشاد ہوتا ہے:
(( لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِہِمْ مَسَاجِدًا )) [1]
’’اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘
نیز فرمایا:
(( اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْنًا یُّعْبَدُ اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِہِمْ مَسَاجِدًا )) [2]
’’ اے اﷲ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے، اس قوم پر اﷲکا سخت غضب ہوا جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو ہیاج حیان بن حصین اسدی کو فرمایا:
’’ کیا میں آپ کو اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور فرمایا تھا، اور وہ یہ ہے کہ کسی تصویر کو مٹائے بغیر نہ چھوڑئیے اور جو بلند قبر دیکھو، اسے زمین کے برابر کر دو۔‘‘
اگر شیعہ امت محمدیہ میں شامل ہیں تو خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صحیح ترین حدیث ان کے لیے کافی ہے اور اگر وہ ائمہ معصومین کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں تو یہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل جو وہ رسول اﷲ کی اطاعت میں بجا لاتے اور اس کام کے لیے دوسرے اشخاص و رجال کو بھیجا کرتے تھے! اور اگر قبور انبیاء کے ساتھ ان کا رویہ یہود و نصاریٰ ہونے کی حیثیت سے ہے تو ہمیں ان سے کوئی سرور کار نہیں ۔
کتاب کے حاشیہ جات اہم مطالب کے فہم و ادراک میں قاری کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ اور وہ آسانی سے مطلب سمجھ سکے گا، حاشیہ نویسی کا محرک یہ امر تھا کہ دور حاضر میں شیعہ نے کتب و رسائل کی اشاعت کے ذریعہ اہل السنۃکے خلاف اس قدرحملے کیے ہیں کہ ان پر خاموش رہنا حق و صداقت کی رسوائی ہے، چنانچہ بتوفیق الٰہی صداقت اسلامی کے تحفظ و دفاع کے لیے یہ مباحث قلمبند کیے۔
[1] صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب(۵۵) ، حدیث:۴۳۵،۴۳۶،۱۳۳۰)، صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور، (حدیث: ۵۲۹۔ ۵۳۱)۔
[2] موطا امام مالک (۱؍۱۷۲) کتاب قصر الصلاۃ فی السفر ،ح:۸۵،تعلیقاً مسند احمد (۲؍۲۴۶) عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ موصولاً وانظر مسند البزار(۴۴۰)۔