کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 458
جماعت حق کی اتباع پر راضی ہو جائے اور دوسری جماعت باطل کی اتباع شروع کردے ؛ تو پھر اس صورت میں معاملہ بالکل واضح تھا؛ اس وقت غور و فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر یہ معاملہ واضح نہ ہو تو پھر اس کا ذکر کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک معاملہ کھل کر واضح نہ ہوجائے۔
دوسری بات : شیعہ مصنف کا [حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ]یہ کہنا کہ: ’’آپ حق کی بنا پر امارت و خلافت کے طالب تھے، چنانچہ قلیل التعداد مسلمانوں نے آپ کی بیعت کی ۔‘‘
بلاشک و شبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق شیعہ کا یہ قول باطل ہے۔اس لیے کہ آپ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں ہرگزخلافت کے طلب گار نہیں ہوئے ۔آپ نے اس وقت خلافت طلب کی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا؛ اور آپ کی بیعت کرلی گئی ۔اس وقت قلیل تعداد میں نہیں بلکہ اکثر لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ اہل سنت اور شیعہ اس امر میں متحد الخیال ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر وعمرو عثمان رضی اللہ عنہم کے ادوار میں اپنی بیعت کی دعوت نہیں دی۔اورنہ ہی کسی ایک نے آپ کی بیعت کی۔لیکن رافضی پھر بھی یہی دعوی کرتے ہیں کہ آپ ایسا کرنا چاہتے تھے۔ اور آپ کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ باقی لوگوں کو چھوڑ کر صرف آپ ہی امامت کے مستحق تھے۔لیکن آپ ایسا کرنے سے عاجز تھے۔اگرمان لیا جائے کہ یہ بات حق ہے؛ تب بھی انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اس لیے کہ آپ نے اپنی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت نہیں دی۔اور نہ ہی کسی ایک نے آپ کی اتباع کی۔توپھر جب یہ سارا قصہ ہی من گھڑت اور جھوٹ ہو تو اس کی قباحت و شناعت کا کیا کہنا ۔
[اعتراض]:.... [رافضی کہتاہے]: ’’چنانچہ قلیل التعداد بااخلاص مسلمانوں کی ایک جماعت نے آپ کی بیعت کی۔‘‘
[جواب] :.... یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹا الزام ہے۔اس لیے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں کسی ایک صحابی نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی ۔ اور کسی ایک کے لیے ایسا دعوی کرنا ممکن بھی نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ : صحابہ کرام میں کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتے تھے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو بہت سارے لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔بعض لوگ ان دونوں سے دور رہے۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو بعض لوگوں کے دلوں میں کسی دوسرے کی طرف میلان تھا۔ اس قسم کی باتیں کلیۃً تو ختم نہیں ہوسکتیں ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ طیبہ میں موجود تھے ؛ تو اس وقت مدینہ میں اوراس کی ارد گرد کی بستیوں میں منافقین بھی رہتے تھے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا