کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 457
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس امت میں سب سے افضل ہیں ۔‘‘
کیا ہم آپ کی بات کو رد کریں ‘ یاپھر آپ کو جھٹلائیں ؟ اللہ کی قسم آپ ہر گز جھوٹے نہ تھے۔‘‘
قاضی عبد الجبار نے اپنی کتاب ’’ تثبیت النبوۃ ‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے‘اور اسے ابو القاسم بلخی کی کتاب کی طرف منسوب کیا ہے۔بلخی نے یہ کتاب راوندی کے رد پر لکھی ہے جو کہ اس نے جاحظ پر اعتراضات میں لکھی تھی۔ اس میں لکھا ہے :
’’ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے : جن لوگوں نے [حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی] بیعت کی وہ دنیا کے طلبگار یا جاہل تھے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ان صحابہ کرام کی شان میں طعن کرنے والا ان اوصاف سے متصف ہے۔ اس لیے کہ آپ اہل قبلہ کے طوائف میں سے کسی کو رافضیوں سے بڑھ کر جاہل نہیں پاؤ گے۔اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی دنیا کا حریص ہے۔ غور و فکر کرنے والا جان سکتا ہے رافضی جو عیب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ وہ خود سب لوگوں سے بڑھ کر اس عیب کا شکار ہوتے ہیں ۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عیب سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔ اس بنا پر رافضی بغیر شک و شبہ کے لوگوں میں سب سے بڑھ کر جھوٹے ہیں ۔ جیسے مسیلمہ کذاب اپنے اس دعوی میں جھوٹا تھا کہ : میں سچا نبی ہوں ۔‘‘اسی لیے یہ لوگ اپنے آپ کو اہل ایمان سے موصوف کرتے ہیں [خود کو مؤمن کہتے ہیں ]؛ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو منافق کہتے ہیں ۔ جب کہ خودرافضی لوگوں میں سب سے بڑے منافق ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو سب سے بڑے مومن تھے ۔‘‘
خلافت علی رضی اللہ عنہ اور بیعت:
[اعتراض]:.... شیعہ مصنف کا قول ہے کہ: ’’ بعض لوگ حق کی بنا پر امارت و خلافت کے طالب تھے، چنانچہ قلیل التعداد بااخلاص مسلمانوں کی ایک جماعت نے آپ کی بیعت کی؛ جنھیں دنیوی زیب و زینت سے کچھ سرور کار نہ تھا؛ اور جنہیں اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی ہر گزکوئی پرواہ نہیں تھی۔بلکہ انہوں نے اخلاص کیساتھ ان کی اطاعت کا اقرار کر لیا جو تقدیم کے مستحق تھے ؛اور ان کے اوامر و احکام کی اطاعت کرنے لگے۔ جب مسلمان اس آزمائش کا شکار ہوئے ؛توہر ایک پر واجب ہوتا تھا کہ وہ حق میں غور وفکر کریں ۔اور انصاف کا سہارا لیں ۔اور حق کو اس کی جگہ پر رکھا جائے اور مستحق پر ظلم نہ کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ اَ لَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ہود:۱۸)
’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اﷲ کی پھٹکار ہے۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: .... پہلی بات : یہ ضروری تھا کہ یوں کہاجاتا: ’’ جب ایک گروہ اس طرف چلا گیا؛ اور ایک گروہ اس طرف چلا گیا تو اس وقت واجب ہوتا کہ وہ غور وفکر کریں کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے ۔ ہاں اگر ایک