کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 456
وکیع ابن الجراح؛ عبد الرحمن بن القاسم ؛ اشہب بن عبد العزیز ؛ ابو یوسف ؛ محمد بن الحسن ؛ شافعی ؛ أحمد بن حنبل؛ اسحق بن راہویہ؛ ابی عبید ؛ ابو ثور رحمہم اللہ ؛ ان کے علاوہ اتنی بڑی تعداد جن کو صحیح طور پر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ جن کو غیر فاضل کو مقدم کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔نہ ہی جاہ ومال کی غرض سے اور نہ ہی کسی لالچ کی بنا پر ۔ یہ وہ لوگ تھے جو سب سے بڑے علماء اور حقائق کی چھان بین کرنے والے تھے۔ یہ تمام حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی تقدیم پر متفق ہیں ۔ بلکہ پہلے کے شیعہ جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں تھے ؛ وہ بھی جناب ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی تقدیم پر متفق ہیں ۔علامہ ابن [1] القاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ امام مالک رحمہ اللہ سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’جن اکابر سے میں نے ہدایت پائی ہے، ان میں سے کوئی بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی ۔حضرت عثمان وعلی رضی اللہ عنہما۔پرتقدیم میں شک نہیں رکھتا تھا۔‘‘ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی تقدیم پراہل مدینہ سے اجماع نقل کیا گیاہے۔ [یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ] اہل مدینہ کا بنو امیہ کی طرف کوئی میلان نہیں تھا؛ جیسا کہ اہل شام کرتے تھے۔ بلکہ اس کے برعکس انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ۔ واقعہ حرہ والے سال یزید سے جنگ کی ؛ اس کی وجہ سے مدینہ میں جو خونریزی ہوئی ؛ وہ سب کو معلوم ہے؛ نیز اہل مدینہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی ایک کو بھی ایسے قتل نہیں کیا جیسے اہل بصرہ و کوفہ اوراہل شام کو قتل کیا۔ بلکہ آپ کا شمار مدینہ کے علماء میں ہوتا تھا۔یہاں تک کہ آپ مدینہ سے باہر نکل گئے اورلوگ آپ پر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو مقدم سمجھتے تھے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت کیاہے ؛ آپ فرماتے ہیں : ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کاحضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو [باقی صحابہ پر] مقدم سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔‘‘ شریک بن ابی نمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک سائل نے آپ سے پوچھاکہ ابو بکر وعلی رضی اللہ عنہما میں سے کون افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔ سائل نے آپ سے کہا : ’’آپ شیعہ ہوکر بھی یہ بات کہتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ ہاں شیعہ وہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اللہ کی قسم ! حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سیڑھیوں پرچڑھے؛ اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: (( خَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ )) [2]
[1] امام عبدالرحمن بن قاسم المتوفی ( ۱۳۲۔۱۹۱)مقام الفسطاط کے مشہور علماء میں سے تھے، یہ امام مالک بن انس المتوفی ( ۱۸۱) کے شاگرد تھے اور ان کے علم و فضل کے مبلغ و ناشر تھے، اسد بن الفرات المتوفی (۱۴۲۔۲۱۳) نے ابن القاسم سے المدونہ کی تعلیم حاصل کی اور ۱۸۱ھ میں یہ کتاب لے کر قیروان پہنچے، ابن القاسم سے متعلق دیکھئے :مقالہ ’’ مع الرعیل الاول ‘‘ مجلہ الازہر، م: ۲۵ ج ۹ص ۹۹۶،۹۹۷، رمضان: ۱۳۷۳ھ) [2] سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۱۰۶) ، مسند احمد(۱؍۱۰۶)۔