کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 453
اس امت میں سب سے افضل ، نیک دل، عمیق العلم اور تکلف و تصنع سے پاک تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت و رفاقت اور دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے منتخب کیا تھا۔ لہٰذا ان کی فضیلت کا اعتراف کیجئے، ان کے نقش قدم پر چلئے، دین و مذہب اور اخلاق و عادات میں ان کی پیروی کیجئے، کیونکہ وہ صراط مستقیم پرگامزن تھے۔‘‘ [1]
یہ اثر کئی علماء نے نقل کیا ہے؛ ان میں سے ایک ابن بطہ بھی ہیں جنہوں نے قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے۔
ابن بطہ اور دوسرے کئی علماء نے معروف اسناد کے ساتھ زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں : حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :
’’اﷲکریم نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے افضل پایا؛ چنانچہ اسے اپنے لیے مخصوص کر لیا۔ پھر بندوں کے دلوں کو دیکھا ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں کو سب سے افضل پایا اور انہیں اپنے نبی کے وزیر بنا دیا؛ جو اس کے دین کی خاطر لڑتے ہیں ۔ جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جسے وہ برا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی بری ہے۔‘‘ [2]
یہ روایت ابن بطہ نے قتادہ رحمہ اللہ سے نقل کی ہے اور دیگر محدثین کے یہاں یہ روایت زربن حبیش سے مروی ہے۔ایک روایت میں ہے کہ اس اثر کے راوی ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں :’’ عاصم بن ابی النجود نے زر بن حبیش سے روایت کیا ہے ‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی صواب دید سے خلیفہ بنایا تھا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول:’’ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے افضل ، نیک دل، عمیق العلم اور تکلف و تصنع سے پاک تھے۔‘‘ایک جامع کلام ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حسن قصد و نیت اور دلوں کی نیکی کا بیان ہے۔ نیز یہ بھی بیان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کمال معرفت و دقت اورگہرے علم کی نعمت سے سرفراز تھے۔ اور آپ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے : صحابہ کرام بلا علم بات کہنے اور تکلف کرنے سے بہت ہی دور اور پاک تھے۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مذکورہ بالا ارشاد اس جاہل مصنف کے ان دعاوی کے عین برعکس ہے کہ حضرات
[1] مشکاۃ۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ(ح:۱۹۳)جامع بیان العلم لابن عبد البر(۲؍۹۷) الھروی (ق:۸۶؍۱)۔
[2] مستدرک حاکم(۳؍۷۸۔۷۹) ،مسند احمد(۱؍۳۷۹)وقال الہیثمي : رواہ أحمد و البزار ‘ و الطبراني في الکبیرمحمع الزوائد ۱؍۱۷۷۔